کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 40
علمی ضروریات میں خرچ کر دیتے یعنی دولت جمع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ محمد بن عبد الوہاب ثقفی کا کہنا ہے کہ خراسان کا گورنر اسمٰعیل بن احمد، اس کا بھائی اسحاق بن احمد اور اہالیان سمرقند انہیں سالانہ چار چار ہزار درہم ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لئے دیت، یعنی بارہ ہزار درہم سالانہ بطور نذرانہ ملتے اور بال بچے بھی زیادہ نہ تھے۔ لیکن پھر بھی یہ تمام رقم سال بھر میں ختم کر ڈالتے۔ ایک روز میں نے عرض کی، حضرت! یہ لوگ جو آپ کو آج اتنی رقم دیتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے، کل ان کا طرزِ عمل بدل جائے۔ بہتر ہوتا کہ آپ آڑ وقت کے لئے کچھ جمع کر لیتے۔ کہنے لگے: ’’واہ! سبحان اللہ‘‘ میں اتنی دیر مصر رہا اور وہاں میری خوراک، کاغذ سیاہی اور دیگر تمام اخراجات پر صرف بیس درہم سالانہ خرچ ہوتے تھے۔ اور کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اتنی آمدنی بھی باقی نہ رہے گی۔‘‘ وفات: آپ نے محرم ۲۹۴ھ میں ۹۲ برس کی عمر میں وفات پائی۔ اِنَّا لِلہِ واِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ ان کے بعد کوئی شخص ان کا ہم پلہ نہ رہا تھا۔ امام موصوف اور فتنہ انکار حدیث: فتنہ انکارِ حدیث اس وقت زور پکڑتا ہے جب حکومت کا ذہن خالص اسلامی نہ ہو اور وہ زمانے کے رخ کو دیکھ کر اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کرنے کی خواہاں ہو، حکومت کے بہی خواہ اور موقعہ پرست حکومت کے رجحان کو دیکھ کر قرآنی تأویلات اور ذہنی تفاسیر تیار کرنے میں مستعد ہو جاتے ہیں ۔ تاکہ غلط عقائد اور غیر اسلامی عادات و اطوار کو اسلام کا لباس پہنایا جا سکے۔ اس سلسلہ میں ذخیرہ احادیث بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے، کیونکہ نبی کی زبان سے ہی قرآن مجید کی آیات کی صحیح تفسیر اور اس کے نازل کرنے والے کی حقیقی ترجمانی ہو سکتی ہے جب اہل ہویٰ احادیث کا جواب نہیں پاتے، تو اپنی آراء سے متصادم احادیث کا انکار شروع کر دیتے ہیں ۔ امام کے زمانے میں بھی کئی ایسے لوگ پیدا ہو چکے تھے جو فلسفۂ یونان سے متاثر ہو کر یونانی عقائد و توہمات اور فلسفانہ موشگافیوں کو عقل سلیم کا نام د کر ا پر اسلام کا لیبل لگانا چاہتے