کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 4
’’علی الخصوص ماہ رجب کے متعلق کوئی صحیح حسن یا کم درجے کی ضعیف سنت وارد نہیں بلکہ اسی سلسلے کی تمام مرویات یا تو موضوع اور جھوٹی ہیں یا انتہائی درجے کی ضعیف زیادہ سے زیادہ اس ماہ کے روزے کے مستحب ہونے کی دلیل مل سکتی ہے۔ کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باہلی آدمی کو فرمایا تھا کہ حرمت کے مہینوں کے روزے رکھو، اس حدیث کو احمد او داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے لیکن اس سے بھی ماہِ رجب کی خصوصیت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘
علامہ شوکانی نے اس کے بعد فرمایا ہے کہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ یوں کہا جائے کہ اشہر حرم کا روزہ مستحب ہے اس لئے کہ اس کی خصوصی دلیل ملتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے روزے سے منع فرمایا ہے، وہ حدیث ضعیف ہے اس کی سند میں زید بن عبد الحمید اور داؤد بن عطا دو (۲) ضعیف راوی ہیں ۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود اس حدیث کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے جس میں رجب کے روزے کا مستحب ہونا مذکور ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو ماہِ رجب کی تعظیم سے روکتے اور فرماتے تھے کہ جاہلیت والے اس مہینے کی عزت و تعظیم کرتے تھے۔ زید بن اسلمؓ کی ایک حدیث میں بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رجب کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ’’شعبان کو چھوڑ کر کدھر چلے گئے ہو‘‘ یہ حدیث مرسل ہے اور اسے ’’ابن ابی شیبہ‘‘ نے روایت کیا ہے۔
نئی ایجاد شدہ نمازیں :
اس مہینے میں ’’لیلۃ الرغائب‘‘ معروف ہے یہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات ہوتی ہے، بعض مشائخ نے اس رات کے لئے ایک نماز ایجاد کی ہے جس کا اہل حدیث نے سختی سے انکار کیا ہے اور علماء نے اس کے باطل ہونے کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب میں ایسی سب نمازوں کو جمع کیا ہے جو ازروئے سنت ثابت نہیں ہیں اور واضح کیا ہے کہ ایسی ایجاز