کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 39
ہی ہوتی تو یہی کتاب ان کے علمی تفوق کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھی، چہ جائیکہ ان کی دوسری تصنیفات ہوں جنہوں نے ان کے علم و فقاہت کا سکہ بٹھایا ہے۔
مشہور عیسائی مورخ فردینان توتل نے ان کے حالات زندگی میں ان کے علمی مقام کو تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصیفات میں ’’الفرائض‘‘ کا ذِکر کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے۔
وَھُوَ اَحَسَنُ ما کُتِبَ فِی ھٰذَا الْبَاب
یہ کتاب اپنے موضوع میں اپنی مثال آپ ہے۔
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ سب سے زبردست عالم وہ ہے جسے ’’ذخیرہ احادیث سب سے زیادہ میسر ہو، وہ احادیث اس اچھی طرح یاد ہوں اور ان کے معانی پر سب سے زیادہ حاوی ہو۔ نیز وہ علمائے امت کے اجماع یا اختلاف (یعنی کس مسئلہ میں سب علماء کی رائے ایک ہی ہے اور کس مسئلہ میں ان کے نقطۂ نظر میں اختلاف رونما ہوا ہے؟) کو سب سے بڑھ کر جانتا ہو۔‘‘ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ تمام صفحات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد امام محمد بن نصر مروزی کے سوا کسی اور شخص میں بدرجہ اتم موجود نہیں ۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کوئی ایسی حدیث نہیں جو محمد بن نصر مروزی کے علم میں نہ ہو تو یہ چیز حقیقت سے بعید نہیں ۔
سیرت:
ابو بکر احمد بن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دو اماموں کا زمانہ پایا لیکن ان سے علمی استفادے کا موقع نہیں ملا۔ ان میں سے ایک ابو حاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن ادریس رازی تھے اور دوسرے ابو عبد اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن نصر مروزی تھے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبد اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن نصر مروزی کی نماز جیسی نماز کسی نہیں دیکھی ان کے متعلق سنا ہے کہ ایک دفعہ دوران نماز ایک بھڑ ان کی پیشانی پر بیٹھ گئی جس کاٹنے سے خون نکل کر چہرے پہ بہہ گیا۔ لیکن امام نے نماز میں حرکت تک نہ کی۔
اگر پونچی تھوڑی ہوتی تو اسی سے گزارہ کر لیتے اور اگر زیادہ ہوتی تو دیگر اخراجات اور