کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 38
کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ۱۔ عبد اللہ بن عثمان مروزی ۲۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہم سبق امام اسحاق بن راہویہ ۳۔ عبید اللہ بن سعید ابو قدامہ سرخسی ۴۔ محمد بن بشار بندار ۵۔ ابو موسیٰ محمد بن موسیٰ الزمن ۶۔ عبید اللہ بن معاذ عبری ۷۔ ہدبہ بن خالد ۸۔ ابراہیم بن فندر حزامی ۹۔ صدقہ بن فضل مروزی ۱۰۔ محمد بن عبد الملک بن ابی الشعارب ۱۱۔ ابو کامل حجدری فضیل بن حسین ۱۲۔ یحییٰ بن زکریا بن یحییٰ ینشا پوری آکر الذکر امام نسائی کے استاذ ہیں ۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین تلامذہ: جس طرح کسی شخص کی قابلیت اور فضیلت کا سہرا اس کے اساتذہ کے سر ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی شہرت کا دارومدار اس کے تلامذہ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ امام موصوف کے فیضان تلمذ سے سرخرد ہونے والے چند مشہور اور جید علماء یہ ہیں : ۱۔ ان کے صاحبزادے اسمٰعیل۔ ۲۔ ابو علی عبد اللہ بن محمد بن علی بلخی۔ ۳۔ محمد ن اسحاق رشادی سمرقندی۔ ۴۔ عثمان بن جعفر لبّان۔ ۵۔ محمد بن یعقوب بن احزم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ۔ امام کا علمی مقام: محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم کا یہ کہنا ہے کہ ’’یہ شخص علاقہ بھر میں امام مانا جاتا ہے۔ چہ جائیکہ خراسان ہو۔‘‘ اسمٰعیل بن قیتبہ کہتے ہیں ’’جب کوئی شخص محمد بن یحییٰ سے کوئی فتویٰ لینے آتا و بسا اوقات وہ اسے امام مروزی کے پاس بھیج دیتے۔‘‘ انہوں نے بڑے بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان علماء سے اپنا علم کا لوہا منوایا ہے۔ چنانچہ اکثر مورخین نے یہ صراحت کی ہے کہ ’’یہ شخص علم حدیث میں سمندر تھا تو فقہ میں لاثانی تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد جتنے علماء ان کے زمانے تک ہو گزرے تھے ان سب کے اختلافات اور احکام شریعت کو ان سے بڑھ کر جاننے والا کوئی نہ تھا۔ ابو بکر صیرفی جیسے فقیہ اور اصولی کا کہنا ہے کہ اگر امام مروزی کی صرف ایک تصنیف ’’قسامت‘‘