کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 29
دراصل متوسط طبقہ کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہوتا ہے اور دل و دماغ بھی یہی طبقہ اسے زندگی کے ہر میدان میں قیادت فراہم کرتا ہے۔ متوسط طبقہ جس قدر قوی اور باشعور افراد پر مشتمل ہو گا۔ قوم اتنی ہی طاقتور اور غیور و جسور ہو گی۔ یہودی اس طبقے کو فنا کے گھاٹ اس لئے اتار دینا چاہتے تھے کہ غیر یہودی قومیں ذہین و باشعور اور غیور و جسور قیادت سے محروم ہو جائیں ۔ اسی ایک طریقے سے یہ قومیں ان کے عزائم کا نرم چارہ بن سکتی تھیں ۔ اس نظام میں پرولتاریوں کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اس کے نزدیک انسانی سوسائٹی کے ارتقاء کی بنیاد یہی طبقہ تھا۔ یہودی ذہن کے تراشے ہوئے اس نظام میں پرولتاریوں کو اہمیت اس لئے دی گئی کہ انہوں خوش آئند اور پر فریب نعروں کے ذریعے بآسانی اپنے دامِ خدع و تزویر میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پھر جس (یورپ کے عیسائی) معاشرے میں سوشلزم کا نظریہ ابتداء پیش کیا گیا۔ اس میں پرولتاری طبقے کی بھاری اکثریت یہودیوں ہی پر مشتمل تھی۔ یورپ میں یہودیوں پر اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری ملازمتوں اور تجارت کے دروازے صدیوں سے بند چلے آرہے تھے اس لئے ان کی اکثریت یا تو دستکار اور کاریگر تھی یا مزدور اور محنت پیشہ، صنعتی انقلاب آیا تو یہودی کاریگر اور دستکار کارخانوں اور فیکٹریوں میں نوکر ہو گئے، اس طرح پرولتاری طبقہ وجود میں آگیا۔ [1]
[1] یورپ میں یہودی پرولتاری طبقے کی قوت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ صیہونی تحریک کے بانی ’’ہرزل‘‘ (Hertzal) نے قیصر جرمنی سے فلسطین کو یہودی بنان کے لئے سودا بازی کرنی چاہی تاکہ وہ ترکی پر دباؤ ڈالے (کیونکہ سلطان عبد الحمید فلسطین کی سرزمین یہودیوں کے حوالے کر دینے کے عوض پچاس لاکھ پونڈ دینے کی پیش کش کو پائے استحقار سے ٹھکرا چکا تھا) اس نے قیصر سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے تیار ہو جائے تو میں یورپ میں سوشلسٹ اور ریڈیکل پراپیگینڈے کو بند کرا دو گا (جس کا سب سے زیادہ ہدف جرمنی تھا)، لیکن جب قیصر نے کوئی یقین دلانے میں تاخیر کی تو ہرزل نے اسے دھمکی دیتے ہوئے لکھا۔ اگر ہمارا کام نہ بنا تو ایک ہی جست میں سینکڑوں انقلابی تحریکوں کے ساتھ جا ملیں گے۔