کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 28
نیا سامراج
آباد شاہ پوری قسط نمبر۲
سوشلزم۔ نظریہ اور تحریک:
صنعتی انقلاب سے یورپ کا اقتصادی نظام جو زرعی بنیادوں پر قائم تھا، تلپٹ ہو گیا تھا۔ عقلیت پرستی اور لبرلزم کی تحریک نے یورپ کے عیسائی معاشرے کی مذہبی و اخلاقی بنیادوں کو متزلزل کر ڈالا۔ انقلاب فرانس نے اس کے سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ نظام جاگیرداری پر استوار مطلق العنان بادشاہتیں ہر جگہ ڈولنے لگیں ، صنعتی انقلاب اپنے جلو میں گوناگوں خرابیاں لے کر آیا۔ بے روزگاری، انسانی محنت کا استحصال، افلاس کی افزونی اور سرمایہ داری کا فروغ و عروج اس کے تلخ ترین ثمرات تھے۔ یورپ کو زندگی کے ایک نئے نظام کی ضرورت تھی۔ وہ نظام جو اس کی معاشرتی و سیاسی زندگی میں پیدا ہونے والے خلاء کو پُر اور صنعتی انقلاب کے مفاسد کا قلع قمع کر سکتا ہے۔ یہودی مفکرین نے جس مقصد کے لئے یورپ کی اجتماعی بنیادوں میں جو بارود بچھایا تھا۔ اب اس کی تکمیل کا وقت آگیا تھا۔ چنانچہ وہ اس خلاء کو بھرنے اور یورپ کے عیسائی معاشرے کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے آگے بڑھے۔ سوشلزم کا نظریہ انہی کے سازشی ذہن کی تخلیق تھا۔ یہ محض ایک اقتصادی نظام نہ تھا، بلکہ زندگی کا مکمل فلسفہ تھا۔ جس کی بنیاد خدا کے کلیۃً انکار، مذہب دشمنی، اخلاقی اقتدار کی تباہی اور مادہ پرستی پر قائم تھی۔ متوسط طبقہ جو اس نظام کی اصطلاح میں ’’بورژوا‘‘ کہلاتا ہے، اس کا یہ جانی دشمن اور اس کے قلع قمع کو اپنی بقا و استحکام کے لئے ناگزیر سمجھتا تھا۔ [1]
[1] اس سلسلے میں Alexandergray کی کتا ب The Socialist Tradition پڑھنے کے قابل ہے۔ اس میں مصنف نے قدیم دور کے بعض یہودی مفکرین (مثلاً اسلامی دور کے ابن میمون) کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے افکار اور فلسفے میں اشتراکی فکر پائی جاتی ہے۔