کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 26
وَمَا کَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔
آپ کے وجود گرامی کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان مشرکینِ مکہ پر عذاب نازل نہیں فرمائے گا۔ اگر استغفار کو لازم کریں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں کرے گا۔
حضرت یونس کی قوم ان کی پیروی سے انحراف کرتی ہے۔ سرکشی اور بغاوت میں حد سے تجاوز کرتی ہے۔ حضرت یونس اپنی قوم سے ناراض اور خشمگیں ہو کر شہر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ اور ان کے لئے عذابِ الٰہی کی بددعا کرتے ہیں ۔ جب قومِ یونس کو پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی دعائیں بارگاہِ ایزدی میں فوراً مستجاب ہوتی ہیں اور یقین ہوتا ہے کہ ہم پر عذاب واقع ہونے والا ہے تو تمام شیر خوار بچے اور معمر، ذکر رواناث، امیر و غریب سبھی اپنے پروردگار کے آستانہ کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں اور رو رو کر اپنے جرائم کی معافی مانگتے ہیں اور آئندہ کے لئے تائب ہو جاتے ہیں تو ان سے عذابِ الٰہی ٹل جاتا ہے جیسے کہ سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے ذِکر فرمایا ہے۔
کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَا ھُمْ اِلٰی حِیْنٍ۔
یعنی ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے عذاب دور کر دیا اور انہیں ایک مدت تک فائدہ اُٹھانے کی اجازت دی۔
بہترین استغفار:
کتب حدیث میں متعدد استغفار کا ذِکر آیا ہے۔ سب سے بہترین استغفار یہ ہے۔
اللّٰهم انت ربی لا الٰہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وانا علی عھدک ووعدک ما استطعت اعوذبک ومن شر ما صنعت ابوء لک بنعمتک علیّ وابوء بذبی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت (بخاری)
اس کا نام سید الاستغفار ہے۔ اس کے پڑھنے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔
ایک آدمی گناہوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل استغفار سکھلایا۔
اللّٰهم مغفرتک اوسع من ذنوبی ورحمتک ارجی عندی من عملی