کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 25
’’کیا تمہیں تمہاری بیماری اور اس کے علاج کی خبر دوں ؟ سنیئے! تمہاری بیماری گناہ ہیں اور تمہاری دوا استغفار ہے۔‘‘
قاریِ استغفار کو خوشخبری:
عبد اللہ بن بسر کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔
طوبی لمن وجد فی صحیفتہ الاستغفار (ابن ماجہ)
اس آدمی کو خوشخبری ہے جس کے صحیفے میں استغفار ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ:
’’جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ اپنا صحیفہ دیکھ کر خوش ہو تو فلیکثر من الاستغفار یعنی اسے چاہئے کہ استغفار کثرت سے پڑھے۔‘‘
انتظارِ استغفار:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
’’جب کوئی مسلمان گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو فرشتہ (کاتب) تین ساعت تک اس کا انتظار کرتا ہے فان استغفر من ذنبہ لم یکتبہ علیہ ولم یعذبہ اللّٰه یوم القیامۃ اگر وہ اپنے گناہ کی معافی مانگ لے تو گناہ اس کے نامۂ اعمال میں درج نہیں ہو گا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اس سے کچھ مواخذہ کریں گے۔‘‘
رفعِ عذاب:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر جب اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے باعث پہاڑ بلند کیا اور گرانا چاہا تو وہ سجدہ میں گر گئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے استغفار کی بدولت ان سے عذاب رفع کر دیا۔
اہل مکہ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عذابِ الٰہی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں :