کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 21
اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین کے برابر گناہ لایا لیکن شرک نہ کیا تو میں اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا۔
صفائی قلب:
جس طرح لوہا پانی میں پڑا رہنے سے زنگ خوردہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی قلوب گناہوں کی نجاست سے آلودہ ہونے کے باعث زنگ خوردہ اور سیاہی آلود ہو جاتے ہیں ۔ ایسے وقت استغفار کی ریتی ہی اس زنگ کو دور کر کے چمکا سکتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر ہے:
فان تاب واستغفر صقل قلبہ (ترمذی)
یعنی اگر انسان توبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگے تو اس سے اس کا قلب چمک اُٹھتا ہے۔
موجبِ جنت:
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار کا ذِکر فرمایا اور اس کی فضیلت ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
فمن قالھا من النھار سوقنا بھا فمات من یومہ قبل ان یمسی فھو من اھل الجنۃ ومن قالھا من اللیل سوقنا بھا فمات قبل ان یصبح فھو من اھل الجنۃ (بخاری)
جو آدمی یقین کے ساتھ دن کو سید الاستغفار پڑھتا ہے اور شام سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو وہ اہلِ جنت سے ہے اور جو رات کو یقین کے ساتھ پڑھتا ہے اور صبح سے پیشتر ہی وفات پا جاتا ہے تو وہ بھی اہلِ جنت سے ہے۔
پریشانی اور تنگیٔ رزق سے نجات:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ دستی اور ذہنی و قلبی پریشانی میں مبتلا اشخاص کو یہ مژدۂ جاں فزا سنایا۔
من لزم الاستغفار جعل اللّٰه لہ من کل ضیق مخرجا ومن کل ھم فرجا