کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 20
ھل من سائل فاعطیتہ ھل من داع فاستجب لہ ھل من مستغفر فاغفرلہ (ابن کثیر)
ہے کوئی سوال کرنے والا! اسے میں دوں ۔ ہے کوئی پکارنے والا۔ میں اس کی دعا منظور کروں ۔ ہے کوئی معافی مانگنے والا۔ میں اسے معاف کروں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رات کو نماز پڑھتے۔ جب آرات کا آخری حصہ ہوتا تو دعا اور استغفار میں مشغول ہو جاتے۔
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ:
’’ہمیں یہ حکم تھا کہ جب رات کو نماز پڑھیں تو صبح تک استغفار میں مشغول رہیں ۔‘‘ (ابن کثیر)
فوائدِ استغفار
گناہوں سے معافی:
انسان کے گناہ خواہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا بحرِ بیکراں کے قطرات سے زائد ہوں تو بھی استغفار سے سب محو ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
یا ابن ادم ما دعوتنی ورجوتنی غفرت لک ما کان فیک ولا ابالی یا ابن ادم لو بلغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرتنی غفرت لک ولا ابالی یا ابن ادم انک لو لقیتنی بقراب الارض خطا یا ثم لقیتنی لا تشرک بی شیئا لا تیتک بقرابھا مغفرۃ (ترمذی)
اے ابن آدم! تو جب تک مجھ سے دعا کرے گا اور امید رکھے گا تیرے جو گناہ بھی ہوں گے معاف کر دونگا اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے معافی مانگے تو بھی میں تجھے گناہوں سے معافی دونگا،