کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 19
کی تلاش میں جنگل کا کونہ کونہ چھانتا ہے لیکن کہیں سے سراغ نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ گرمی و تشنگی سے مغلوب ہو کر اسی جگہ پر واپس آجاتا ہے جہاں پہلے لیٹا ہوا تھا۔ وہاں پر مرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور اپنا بازو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا ہے تاکہ وہ موت کے ذریعے اس مصیبت اور پریشانی سے نجات پائے۔ تھوڑی دیر کے بعد بیدار ہوتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے اس کی اونٹنی بمعہ سامان خورد و نوش اس کے سر پر کھڑی ہے۔ یہ ماجرہ دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ فرحت و انبساط کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ اس کے دماغی توازن درست نہیں رہتا۔ خوشی میں آکر کہتا ہے۔
اللّٰهم انت عبدی وانا ربّک (مسلم) یا الٰہی! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہے۔
وقتِ استغفار:
ویسے تو جس لمحہ اور جس ساعت انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے اور مجیب الدعوات ہے۔ لیکن رات کا آخری ثلث اس کام کے لئے زیادہ مخصوص ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا۔
وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ۔ (آل عمران)
ایک او مقام پر فرمایا:
وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔ (الذاریات)
کہ اللہ کے بندے ہنگامِ سحر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام سے جب ان کی اولاد نے اپنی غلطی کی معافی چاہی تو جواب دیا کہ:
سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ (یوسف) میں جلد ہی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کرونگا۔
چنانچہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کی کوتاہی کی معافی کی درخواست ہنگام سحر بارگاہِ ایزدی میں پیش کی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ اللہ رب العزت رات کو دنیا والے آسمان پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آواز دیتے ہیں ۔