کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 18
معصوم عن الخطا ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کا ایک ایک لمحہ اطاعت اور عبادتِ الٰہی میں گزارا۔ گناہ کرنا تو کجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ میں گناہ کا کبھی تصور بھی پیدا نہیں ہوا۔ با ایں ہمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک حدیث شریف میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
یایھا الناس توبوا الی اللّٰه فانی اتوب الیہ فی الیوم مائۃ مرۃ (بخاری)
کہ لوگو! اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ رب العزت سے دعا کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مندرجہ ذیل استغفار کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ (ابو داؤد)
میں اللہ سے بخشش کی دعا کرتا ہوں ، وہ اللہ جس کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ اور قائم ہے اور میں اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔
غرضیکہ تمام انبیاء علیہم السلام حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ و استغفار کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا ہوا تھا اور ہر وقت ان کی زبانِ مبارک سے استغفار کے کلمات ہی سنائی دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استغفار اللہ تعالیٰ کی رضا کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انسان خواہ گناہوں میں ڈوبا ہوا ہو جب بارگاہِ ایزدی میں سر جھکا کر رب رب کے الفاظ سے اپنے خالقِ حقیقی سے معافی مانگتا ہے تو اس کی رحمت کا بحرِ بیکراں جوش میں آکر اس کے گناہوں کے تمام خس و خاشاک کو بہا کر لے جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے بے حد خوش ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جو ایک بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں اترتا ہے۔ اس کے پاس سواری ہوتی ہے جس پر اس کا خورد و نوش کا سامان بندھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ وہاں چند منٹ سستانے کی غرض سے لیٹ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب بیدار ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی اونٹنی بمعہ سامان خورد و نوش غائب ہے۔ اس