کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 17
استغفارِ موسیٰ:
ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کسی بات سے آپس میں جھگڑتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسرائیلی کی حمایت کرتے ہوئے قبطی کو ایک مکہ مارتے ہیں جس سے وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ فوراً اپنی کوتاہی اور غلطی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتے ہیں ۔
رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہ (سورہ قصص)
’’اے میرے پروردگار! (قبطی کا مار کر) میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ مجھے معافی دیجئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اسے معافی عنایت فرمائی۔
استغفارِ یونس:
حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں ۔ آخر قوم کی سرکشی اور طغیانی کو دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں اور اذنِ الٰہی کے بغیر شہر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور قوم کے لئے عذاب کی دعا کرتے ہیں ۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم عذاب کی خبر سن کر خوفزدہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ تمام مل کر بارگاہِ الٰہی میں توبہ تائب ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتے ہیں اور عذابِ الٰہی ان سے ٹل جاتا ہے۔
جیسا کہ فرمایا:
کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَا ھُمْ اِلٰی حِیْنٍ۔ (یونس)
ادھر حضرت یونس علیہ السلام اپنی غلطی کی بدولت لقمۂ حوت بن جاتے ہیں اور اس کے پیٹ میں اللہ رب العزت کی بارگاہِ عالی میں ان کے ساتھ معافی مانگتے ہیں ۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ (سورہ انبیاء)
تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، تو پاک ہے۔ بیشک میں ہی ظالموں میں سے ہوں ۔
چالیس روز تک انہیں الفاظ سے اپنے مالک حقیقی سے معافی مانگتے رہے پھر کہیں جا کر انہیں معافی ہوئی۔
استغفارِ سید المرسلین:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی وہ ہستی ہے جس کے متعلق امت محمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم