کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 15
تصریح موجود ہے) حکم دیا کہ ثیبہ کا نکاح جب تک وہ بول کر صراحتاً اجازت نہ دے نہ کریں اور باکرہ کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کریں مگر اس کی اجازت کے لئے بولنا ضروری نہیں بلکہ سکوت بھی کافی ہے۔ یہ حدیثیں جیسے اس بات پر دال ہیں کہ عورت کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ، اسی طرح اس پر بھی دال ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں کیونکہ آپ نے اولیاء کو ہی اجازت لے کر نکاح کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ غیر اولیاء کو۔ معلوم ہوا کہ یہ کام اولیاء کے ہی سپرد ہے اور وہی اس کو انجام دےے سکتے ہیں۔ ان کے کرنے سے ہی ہو گا ورنہ نہیں ۔ اس کے بعد صحیح مسلم میں ایک دوسرا عنوان موجود ہے۔ ’’باب جواز تزویج الاب البکر الصغیرۃ‘‘ (یعنی باپ اگر اپنی چھوٹی سی بچی بے شعور کا نکاح کر دے تو جائز ہے[1]) اس باب میں امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا واقعہ متعدد طرق سے بیان کیا ہے کہ آپ بیان فرماتی ہیں کہ میرا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا تھا۔ اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ولی (باپ وغیرہ) کو اس قدر حق حاصل ہے کہ وہ بے شعور بچی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر بھی کر سکا ہے کیونکہ بے شعوری میں لڑکی سے اجازت لینا بے معنی ہے۔ پس صحیح بخاری کی طرح صحیح مسلم سے بھی ثابت ہو گیا کہ عورت کے نکاح میں ولی کا دخل و اختیار ہے وہ نکاح کر بھی سکتا ہے اور روک بھی سکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ صحاح ستہ وغیرہ کی احادیث صحیحہ صریحہ مرفوعہ سے ثابت ہو گیا کہ ولی کے بغیر نکاح میں ہوتا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ولی مرد ہی ہو سکتا ہے عورت نہیں ہو سکتی۔ عورت نہ اپنا نکاح کر سکتی ہے نہ ہی دوسری عورت کا کرا سکتی ہے۔ آئندہ قسط میں صحابہ کرام کا مسلک بیان کیا جائے گا جو سب اس پر متفق ہیں کہ عورت کے لئے نکاح میں ولی ضروری ہے۔
[1] کوئی یہاں بلوغت کے بعد خیارِ بلوغ کا شبہ نہ کرے کیونکہ وہ بمنرلہ لڑکی کی اجازت کے ہے جو ولی کے لئے ضروری ہے جیسا کہ احادیث میں گزر چکا ہے۔ (ادارہ)