کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 14
حاصل یہ کہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے آیات و احادیث سے خوب ثابت کر دیا کہ ولی کے بغیر کسی عورت (ثیبہ ہو یا باکرہ) کا نکاح نہیں ہوتا۔
اس کے بعد صحیح مسلم ملاحظہ ہو۔ شرح نووی میں اگرچہ لا نکاح الا بولی کے الفاظ سے کوئی عنوان موجود نہیں لیکن بمطابق بتویب نووی جو حدیثیں ’’باب استیذان الثیب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت‘‘ میں ذکر ہوئی ہیں وہ بھی ولی کی ولایت کے معتبر ہونے پر دال ہیں ۔ اس سیاق میں امام مسلم نے کئی حدیثیں ذکر کی ہیں جو مشکوٰۃ سے نقل کرتا ہوں ۔
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لا تنکح الایم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستأذن قالوا یا رسول اللّٰه وکیف اذنھا قال ان تسکت (متفق علیہ)
ترجمہ: یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت سے مشورہ لیے بغیر نکاح نہ کیا جائے اور باکرہ سے ابھی اذن طلب کیا جائے۔ صحابہ نے عرض کیا، اس کا اذن کس طرح ہے؟ آپ نے فرمایا، اس کا خاموش رہنا۔ (مسلم بخاری نے اس کو روایت کیا۔ مشکوٰۃ ص ۲۷۰۔ مسلم جلد ۱ ص ۴۵۵
عن ابن عباس ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال الایم احق بنفسھا من ولیھا والبکر تستاذن فی نفسھا وانھا صماتھا وفی روایۃ قال الثیب احق بنفسھا من ولیھا والبکر تستامر واذنھا سکوتھا وفی روایۃ قال الثیب احق بنفسھا من ولیھا والبکر یستاذنھا ابوھا فی نفسھا واذتھا صماتھا (رواہ مسلم مشکوٰۃ ص ۲۷۰ مسلم ج ۱ ص ۴۵۵)
ترجمہ: ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور باکرہ سے بھی مشورہ لیا جائے اور اس کی خاموشی اس کا اذن ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ بیوہ اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے[1] اور باکرہ سے اس کا باپ اذن طلب کرے اور خاموشی اس کا اذن ہے۔ اس کو مسلم نے روایت کیا۔ مشکوٰۃ ص ۲۷۰، مسلم جلد ۱ ص ۴۵۵
ان حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولیاء کو ہی (جیسا کہ ایک روایت میں باپ کی
[1] زیادہ حق رکھنے سے ولی کا حق ختم نہیں ہو جاتا، لہٰذا ثیبہ بھی ولی کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی۔ اس کی پوری تفصیل آئندہ آئیگی۔ ان شاء اللہ۔