کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 13
اس ترجمہ پر مولانا مرحوم نے حواشی بھی دیئے۔ حاشیہ نمبر ۱ میں فرمات ہیں : ’’اہل حدیث اور شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ اور اکثر علامء کا یہی قول ہے کہ عورت کا نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہوتا اور جس عورت کا کوئی ولی رشتہ دار زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہے اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں جن کو امام بخاری اپنی شرط پر نہ ہونے سے نہ لا سکے۔ ایک ابو موسیٰ کی حدیث ہے کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اس کو ابو داؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نکالا اور حاکم اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا۔ ابن ماجہ کی ایک روایت ہے یوں ہے کہ عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت آپ نکاح کرے۔ اور ترمذی اور ابن حبان اور حاکم نے نکالا جو عورت بغیر اجازتِ ولی کے اپنا آپ نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے باطل، باطل۔ اور امام ابو حنیفہ نے برخلاف ان احادیث کے یہ کہا ہے کہ بالغہ آزاد عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی ہے۔ قسطلانی نے کہا، اب اگر کوئی عورت بغیر ولی اپنا نکاح آپ کرے اور شوہر اسی سے صحبت کرے تو اس پر حدِ زنا تو نہ پڑے گی، لیکن مہر مثل لازم ہو گا اور سزا دی جائے گی اور وہ جانتا ہو کہ ایسا کرنا حرام ہے۔‘‘ حاشیہ نمبر ۲ میں جو آیت فلا تعضلوھن پر لکھا ہے وہ یہ ہے کہ: ’’اس آیت سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے ورنہ روکنے کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتا۔‘‘ حاشیہ نمبر ۳ جو فدخل فیہ الشیب وکذلک البکر پر لکھا ہے وہ یہ ہے کہ: ’’بغیر ولی کے کسی کا نکاح صحیح نہیں ہو سکتا۔‘‘ حاشیہ نمبر ۴ جو آیت لا تنکحوا المشرکین وانکحوا الایامٰی منکم پر لکھا ہے فرماتے ہیں : ’’ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ نکاح نہ کرو یا نکاح کر دو تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے۔‘‘ اس کے بعد امام بخاری نے چار حدیثیں ذکر کی ہیں ۔ پہلی دونوں حضرت عائشہ سے مروی ہیں ۔ تیسری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور چوتھی معقل بن یسار سے، جو کافی طویل ہیں ، ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے جس شخص سے مناسب سمجھے کر دے۔ جہاں نہ مناسب سمجھے نہ کرے۔ ہاں عورت کی رضا و اجازت بھی ضروری ہے۔