کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 12
یہی جمہور کا قول ہے۔
مذکورہ بالا احادیث صحیح ہیں جیسا کہ بندہ نے ہر حدیث ذِکر کرنے کے بعد اس کی صحت بھی محدثین سے نقل کر دی ہے۔ پھر بھی بعض لوگ خواہ مخواہ ان احادیث کی صحت و ضعف پر طویل بحث شروع کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے ان کی ہر علت و اعتراض کا مفصل جواب لکھ دیا ہے جو اپنا اطمینان کرنا چاہے وہ شروحات حدیث فتح الباری، نیل الاوطار اور عون المعبود وغیرہ خصوصاً سبل السلام شرح بلوغ المرام دیکھے اگر انصاف اور خدا خوفی سے کام لیا تو ان شاء اللہ تعالیٰ تسلی ہو جائے گی۔
نیز یہ ایسا مسئلہ ہے جو غالباً حدیث کی کل کتابوں صحاح ستہ وغیرہ، میں موجود ہے۔ چنانچہ بہت سی کتب حدیث کے حوالے گزر چکے ہیں ۔ آگے صحیحین سے ہی نقل کروں گا۔ پھر خواہ مخواہ انکار کرنا اور اس کے خلاف فتویٰ دینا انصاف و ایمان کے تقاضا کے خلاف ہے اور اس کا موجب تقلیدِ شخصی ہے۔ اب بخاری شریف جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اور صحیح جس کی صحت و شان صحیح بخاری کے بعد مسلمہ ہے، سے ملاحظہ فرمائیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے باب من قال لا نکاح الا بولی منعقد کیا ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا احادیث امام بخاری کی شرط پر نہ تھیں لہٰذا انہوں نے دیگر احادیث سے جو ان کی شرط پر ہیں اور بعض آیات سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ پہلے آیات ذکر کی ہیں ۔ فرماتے ہیں :
لقول اللّٰه تعالیٰ فلا تعضلوھن فدخل فیہ الثیب وکذلک البکر وقال لا تنکحوا المشرکین حتٰی یؤمنوا وقال وانکحوا الایامی منکم
مولانا وحید الزمان نے اس کا یوں ترجمہ فرمایا ہے:
’’بغیر ولی کے نکاح صحیح نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا ہے جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو (اے عورتوں کے اولیاء) تم کو ان کا روکنا درست نہیں (یعنی نکاح نہ کرنے دینا) سا میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا (عورتوں کے اولیاء) تم عورتوں کا نکاح۔ مشرک مردوں سے نہ کرو اور۔ سورہ نور میں فرمایا جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔‘‘