کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 11
بلوغ المرام میں ہے اخرجہ الاربعۃ الا النسائی وصححہ ابو عوانۃ وابن حبان والحاکم ( ص ۷۹)
ترجمہ: یعنی حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے وہ نکاح باطل ہے، باطل ہے باطل ہے۔ اگر خاوند اس سے صحبت کر بیٹھے تو عورت کے لئے مہر ہے۔ اگر اولیاء آپس میں تنازعہ کریں اور کوئی فیصلہ نہ ہو سکے تو حاکم ولی ہے۔ (اس کو احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ اور بلوغ المرام میں ہے اس کو سنن اربعہ نے سوائے سنائی کے اور ابو عوانہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور ابو عوانہ ابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح کہا۔ نیز اس کو یحییٰ بن معین نے بھی صحیح کہا ہے جیسا کہ سبل السلام میں ہے) نیز سبل السلام میں ہے وفی الحدیث دلیل علی اعتبار اذن الولی فی النکاح وھو یعقدہ لھا او عقد وکیلہ۔ یعنی یہ حدیث اس پر دال ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح معتبر نہیں یا ولی خود اس کا نکاح پڑھے یا اس کا وکیل (سبل السلام ج ۲ ص ۶۴)
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لا تزوج المرءۃ المرءۃ ولا تزوج المرءۃ نفسھا فان الزانیۃ ھی التی تزوج نفسھا رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ ص ۲۷۱)۔
بلوغ المرام میں ہے: رواہ ابن ماجہ والدار قطنی ورجالہ ثقات
ترجمہ: ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت نہ کسی عورت کا نکاح کرائے نہ اپنی ذات کا کیونکہ جو عورت اپنا نکاح خود بغیر ولی کے کراتی ہے وہ زانیہ ہے یعنی عورت نہ اپنا نکاح خود کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری کی ولی بن سکتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے گی تو وہ نکاح نہیں ہو گا زنا ہو گا۔ (اس حدیث میں بغیر ولی کے نکاح پر کتنی سخت وعید ہے کہ اس کو زانیہ فرمایا ہے۔ آخرت میں زانیہ کی سزا اس کو ملے گی)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ اور دارِ قطنی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ (بلوغ المرام ص ۷۹)
سبل السلام جلد ۲ ص ۶۵ میں ہے فیہ دلیل علی المءۃ لیس لھا ولایۃ فی النکاح لنفسھا ولا لغیرھا الخ
ترجمہ: یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت کو اپنایا دوسری عورت کا نکاح کرانے میں ولی بننا جائز نہیں ۔