کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 8
کیا یہ برائیاں روز روشن میں صاف اور واضح طور پر ہم اپنی ناک کے نیچے دیکھ نہیں رہے؟ کیا ان میں بتدریج اضافہ نہیں ہو رہا؟ کیا برائی خم ٹھونک کر میدان میں نہیں آرہی اور نیکی کونوں گوشوں میں سمٹ نہیں رہی؟ جب ہر قسم کی برائیاں اس طرح نمودار ہو جائیں تو کسی مسلمان کو زیبا نہیں کہ خاموش تماشائی بنا رہے اور بے غیرت انسان کی طرح سب کچھ گوارا کر کے عافیت کے گوشے تلاش کرتا پھرے۔ اس وقت تو ساری فائز المرامی یہی ہے کہ بڑھ کر بدی کے اس عفریت کا سر کچل کر رکھ دیا جائے۔ خواہ اس راہ میں جان ناتواں بھی جان آفرین کے سپرد کر دینی پڑے۔ خدارا ایسا نہ ہو کہ طاغوتی طاقتیں بڑھتی رہیں اور جرأت و جواں مردی سے اسے روکنے والا کوئی ہاتھ آگے نہ بڑھے! اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی برائی نے سر اٹھایا اس کا راستہ روکنے والے اولوالفرم لوگ میدان عمل میں ڈٹ گئے، یہ قافلۂ عزم و استقامت بڑھتا ہی رہا، گو اسے لاکھ کانٹوں سے الجھایا گیا۔ گالیوں کی بوچھاڑ، سنگ و خشت کی بارش اور ظلم و تعدی کے خنجر ان کو رواں دواں ہونے سے روک نہ سکے۔ کیا آپ انہیں جلیل القدر اسلاف کے فرزند نہیں ہیں ؟ کیا آپ اپنی تاریخ میں یہ لکھوانا چاہتے ہیں کہ اس دور میں کوئی قافلۂ حق ہی نہ تھا جو آگے بڑھ کر برائی کا راستہ روک لیتا، کوئی پاکباز گروہ نہ اٹھا جو سنت اسلاف کو زندہ کر کے اسلام کو سربلند رکھتا؟ کیا یہ معاشرہ بالکل ہی بانجھ ہو چکا ہے؟ کیا نیکی ختم ہو چکی اور صلاحیتیں جواب دے چکی ہیں ؟ کیا خدا کے طرف داروں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں سے دنیا خالی ہو چکی ہے؟ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ۔ ’’کیا تم میں کوئی سمجھ بوجھ والا شخص نہیں رہا؟‘‘ نہیں نہیں ! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ابھی اس دنیا میں سعید روحیں یقیناً باقی ہیں ۔ ہم اس تاریک ماحول میں کھڑے انہی سعید روحوں کو اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بالحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الحَسَنَۃِ