کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 7
اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْ مَا بِاَنْفُسِھِمْ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ابھی کچھ مہلت باقی ہے۔ اب بھی کہیں کہیں دین، نیکی، اخلاق اور ادب و اصلاح کے نام پر کچھ گردنیں جھک جاتی ہیں ، اس لئے ملت کے ہر بہی خواہ اور پیغمبر صادق کے ہر کلمہ گو کا فرض ہے کہ پانی کے سر سے گزر جانے سےپہلے پہلے کمر ہمت باندھ کر میدان عمل میں نکل آئے۔ ورنہ یاد رکھئے جب قوم میں دعوتِ خیر پر لبیک کہنے والوں کی تعداد غیر مؤثر اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی اور اکثریت انسان نما حیوانوں ، بے شعور، بے غیرت اور بے دین لوگوں پر مشتمل باقی رہ جائے گی تو سمجھ لیجئے اس وقت خدا کے عذاب اور قوم کے مٹ جانے کا وقت آپہنچا۔ سپین، غرناطہ اور سقوط بغداد کے واقعات سے دلی کے لال قلعہ اور شاہی مسجد کے میناروں سے ہمارے زوال کی داستانیں پوچھ لو،یہی تاریخ اُمم ہے، یہی سنت اللہ ہے۔
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا ۔
’’تم عادت الٰہی میں کبھی تغیر و تبدل نہ پاؤ گے۔ (بے عمل قومیں ہمیشہ مٹا دی جاتی ہیں )‘‘
اگر کوئی غلط روش معاشرہ کو ہلاکت کے جہنم کی طرف دھکیل رہی ہو، آپ کا حساس دل اس روش سے رنجیدہ اور ملول خاطر بھی ہو اور اس غلط روش کے مضر اثرات ملک و ملت سے بڑھ کر آپ کی ذات تک بھی پہنچنے والے ہوں تو پھر جان لیجئے کہ یہیں سے ہم سب کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے اور یقیناً ہم سب خدا تعالیٰ کے ہاں اس کے لئے جوابدہ ہوں گے۔
اب بھی وقت ہے کل (اور محشر کے ہاں جب پیش ہو گے، کیونکر کہو گے کہ جاننے کے باوجود جان نہ سکے؟ آنکھوں کے باوجود دیکھ نہ سکے؟ دل و دماغ کے باوجود سوچ نہ سکے؟ اور ہاتھوں کے باوجود عمل سے عاری رہے؟ جاگتے تھے لیکن سوئے ہوؤں سے بدتر تھے، تو پھر خدارا سوچئے ہمیں مسلمان کہلانے کا کیا حق ہے؟