کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 6
اسلامی نظامِ تعلیم کی اہمیت کا احساس سب کو اچھی طرح ہے۔ گزشتہ چوتھائی صدی سے ملک کے ہر گوشہ سے ہر مکتب فکر اور طبقہ سے تعلق رکھنے والے عالموں ، دانشوروں ، خطیبوں ، سیاستدانوں اور اربابِ اقتدار و اختیار سے لے کر خود عزیز طلبا تک نے چیخ چیخ کر کہا کہ ہمارا موجودہ نصابِ تعلیم ہماری امنگوں اور ولولوں ، ہماری تہذیب و تمدن اور ہماری روایاتِ و نظریات کے ساتھ نہ صرف ہم آہنگ نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے اور وہی ہے جو انگریز نے ہماری قومیت کی تباہی کے لئے سازشاً تیار کیا تھا۔ اس کافرانہ نظامِ تعلیم کے جو نتائج نکلے ہیں وہ آپ نے دیکھ لئے ہمارا ملک الحاد اور مادیت کی رو میں بہہ رہا ہے۔ ہماری نئی پود خود اہل اسلام کے خلاف خون آشام تلوار ہاتھ میں لئے منتظر کھڑی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل کے معاشرہ میں کسی شریف آدمی کا سانس تک لینا مشکل ہو جائے گا۔ مشرقی پاکستان کی موجودہ انارکی اس کی زندہ مثال ہے۔ موجودہ فحاشی، عریانی، بے پردگی، اور نسوانی آزادی اسی تعلیم کے مختلف مظاہر ہیں ۔ اگر خدانخواستہ یہی شب و روز رہے و مغربی پاکستان بھی اسلامی روایات سے تہی دامن ہو کر اسلامی نظریات کے در پے آزاد ہو جائے گا۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اِس نظریاتی ملک میں اسلام اور قرآن کی تعلیم تو نامکمل اور برائے نام ہو اور وہ بھی اختیاری، لیکن انگریزی اور دوسری لا یعنی تعلیم کو ہر مقام پر بالا دستی حاصل ہو۔ کیا یہ عجوبہ نہیں کہ جب اہل وطن خطرہ خطرہ کا الارم بجانے میں ہم آہنگ ہیں تو پھر وہ مل کر اس کا علاج کیوں نہیں سوچتے؟ اس کے علاج کے لئے کوئی منظم کوشش کیں بروئے کار نہیں لاتے؟ کیا زبان سے خطرہ خطرہ پکارنے سے خطرات ٹل جایا کرتے ہیں ؟ کیا موت موت چلانے سے موت پر جاتی ہے؟ کیا محض آگ کا شور مچانے سے آگ بجھ جاتی ہے؟ یہ دنیا تو میدانِ عمل ہے، خود خدا وند قدوس بھی انہی کی مدد فرماتے ہیں ، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: