کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 5
رکھ کر فرمائیے کہ یہ بے معنی اور بے مقصد تعلیم کا بوجھ جو ہماری نسلِ نو کے کندھوں پر لاد دیا گیا ہے کیا اینٹ، پتھر او مٹی کے بے قیمت سنگریزوں سے کچھ زیادہ حیثیت رکھتا ہے!!
کیا قرآن کریم کی یہ آیت ہم پر صادق نہیں آتی:۔
ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا۔ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذّبُوْا باٰیَاتِ اللّٰهِ واللّٰهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ (جمعہ)
’’ان کی حالت اس گدھے کی سی ہے۔ جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں ، خدا کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں کی مثال کتنی بری ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت س کبھی سرفراز نہیں فرماتے۔‘‘
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر ہم نونہالانِ وطن کو صحیح اسلامی تعلیم سے محروم رکھ کر اپنے فرض منصبی سے غافل رہے تو سرفرازی وطن کا باعث بننا تو کجا ہم ہلاکت و بادی کے لق و دق صحرا پہنچ کر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔
یاد رکھئے! جس طرح یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جاہل اور ان پڑھ قوموں نے عزت و عروج اور سربلندی و سرفرازی حاصل نہیں کی وہاں یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کا واحد راستہ اسلامی نظامِ تعلیم کے احیاء و نفاذ کے سوا کچھ نہیں ہمارے لئے شیکسپئر، میکالے، روسو، لینن، ماؤ اور مارکس کے ہاں کوئی خوشخبری نہیں ، ہمارا منبع تعلیم، کلامِ پاک، احادیثِ رسول، اسوۂ پیغمبر اور تعلیماتِ اسلام ہے۔ ہمارے مینار روشنی خلفائے راشدین، صحابہ کریم رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ کے پاکباز مسلمان ہیں ، ہماری تاریخ بے مثال ہیروز اور لاجواب شخصیتوں سے پُر ہے۔ جب ہماری قوم دنیا کی کسی قسم سے فرو تر نہیں تو پھر یہ احساس کمتری کیوں ؟ دوسری کی دریوزہ گری کب تک! اور پھر ان کم ظرفوں کی جو ہمارے ہی جواہر ریزوں کو چرا کر جوہری بنے بیٹھے ہیں ! افسوس!
’’آنچہ ما کردیم باخود ہیچ نابنیا نہ کرد‘‘