کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 4
ہے، دوسری اور تیسری نسل عملاً اسلام سے برگشتہ ہو رہی ہے۔ عیسائیت، یہودیت اور لا دینیت نے مل کر مسلم قومیت کے لئے جو جال بنا تھا ہم اس کے اسیر ہو چکے ہیں ۔ کیا اس فرمان خداوندی اور وعید الٰہی سے ہم بے خبر ہو گئے ہیں ۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو قُوْا انْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ جہنم سے بچاؤ (جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں )۔‘‘ افسوس کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم اس نظامِ تعلیم کو آزادی کے چوبیس سال بعد تک بھی اپنائے ہوئے ہیں ۔ جس سے زیادہ مکروہ نظامِ تعلیم کسی قوم نے اپنے بچوں کے لئے روا نہیں رکھا۔ جو خدا سے انحراف، ادب و اخلاق سے عاری اور حقوق و فرائض سے غفلت سکھاتا ہے۔ خدمت خلق کی بجائے خود غرضی، نفسانیت اور ہر قسم کی بے راہ روی سے بچوں کے اخلاق اور انسانیت کو اُلٹی چھری سے ذبح کر رہا ہے۔ یہ آگ جس سے خداوندِ قدوس نے ہمیں بچنے کا حکم دیا ہے۔ کفر و الحاد کی آگ ہے مروجہ نظامِ علیم اور نصاب تعلیم اسی آگ کے الاؤ ہماری ملت کے اندر جلا رہا ہے۔ جس سے اسلام کے شاہین بچوں کی وہ صلاحیتیں خاکستر ہو رہی ہیں ۔ جو قرآن و اسلام کی پُر عظمت تعلیم کے ذریعہ جلا پا کر امت کی رہنمائی کے مقام تک پہنچاتی ہیں ۔ اگر تعلیم کا مقصد فی الواقع معرفتِ کردگار ہے، اگر تعلیم کا مقصد بجا طور پر حقوق و فرائض کی بجا آوری ہے۔ اگر علم کی غرض و غایت پر امن معاشرہ کی تخلیق، ایک دوسرے کی مخلصانہ ہمدردی، سفلی جذبات سے پرہیز اور اخلاق عالیہ کی ترویج و توسیع ہے تو خدا کے لئے غور فرمائیے کہ ہم اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں ؟ کیا ہمار تعلیمی اداروں نے ہمارے نونہالوں کے دلوں میں اسلام کی کوئی جوت جگائی ہے؟ کیا اس سے اسوۂ حسنہ کے کچھ چراغ روشن ہوئے؟ کیا قرآن فہمی او عقل و بصیرت کے کچھ باب کھلے؟ کیا اسلام کی عظمتِ دیرینہ اور شوکت پارینہ کے حصول کی کچھ راہیں کشادہ ہوئیں ؟ اگر یہ نہیں اور خدا کی قسم نہیں ! تو پھر سینے پر ہاتھ