کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 35
انصاف کا خیال رکھ سکے، ورنہ حکم ہوتا ہے کہ پھر ایک ہی رکھو، تو چار کہاں ۔ پھر ایک سے دوسری کرنے کی بھی اجازت نہیں ۔ عدل و انصاف سے غرض ظاہری حقوق میں مساوات ہے۔ باطنی اور قلبی محبت میں مساوات کا مطالبہ نہیں ، کیونکہ یہ بات انسان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ بہرحال قرآن کریم کا حکم ہے کہ: وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ [1] ’’یہ تو تمہارے بس میں نہیں کہ عورتوں میں کما حقہ عدل کر سکو، خواہ کتنا ہی تم چاہو، تو پھر بھی بالکل (ایک ہی طرف) مت جھک پڑو کہ دوسری کو (اس طرح) چھوڑ بیٹھو، گویا (خلا میں ) لٹک رہی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ عورت کو زچ کرنے اور خوار کرنے کی اور بھی کئی ایک صورتیں ہیں ، مثلاً: ٭ بٹے کے نکاح میں ایک دوسرے سے بدلہ لینے کے لئے بعض اپنی بیوی کو میکے بھیج کر پھر اس کو پوچھتے نہیں ۔ ٭ یا بیوی کا قدرتی طور پر دل نہیں لگ سکا تو اس کو اس کی سزا دیتے ہوئے لٹکا رکھتے ہیں ، نہ بساتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں ۔ ٭ بعض اوقات محض حسد کی بناء پر کہ میں نے چھوڑ دی تو فلاں سے شادی کر لے گی۔ اس لئے اس کو چھوڑو ہی نہیں ۔ الغرض اسلام کا حکم ہے، رکھو تو عدل سے رکھو، ورنہ اس کو چھوڑ دو تاکہ وہ اپنا مستقبل بنا سکے۔ لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی عورت ناحق مرد کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائے۔ بسائے نہیں تو اس کو چھوڑے بھی نہیں ۔ لٹکائے ہی رکھے۔ ان حالات میں اگر وہ خود ہوش میں نہ آئے تو قاضی کی
[1] پ۵۔ النساء۔ ع۱۹