کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 33
وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلِ اللّٰهِ
’’اور تم کو (کسی طرح) شایاں نہیں کہ رسولِ خدا کو دکھ دو۔‘‘
ان تصریحات سے پتہ چلتا ہے کہ پردہ ہر اس شخص سے ضروری ہے جس سے کسی حالت میں بھی نکاح ممکن ہے مگر یہاں دستور ہی اور چل نکلا ہے کہ:۔
’’جو پردہ کی قائل ہیں ، وہ دوسروں سے تو کرتی ہیں مگر غیر محرم قریبی رشتہ داروں سے بالکل نہیں کرتیں ۔‘‘ حالانکہ یہ شرعاً غلط بات ہے۔
رشتہ داروں کا گھروں میں آنا جانا تو رہتا ہی ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں اس کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اِن کے سامنے گھونگٹ کر لیا کرے۔ یہ راہ، راہِ عافیت بھی ہے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی۔ اِس میں برکت بھی ہے اور عصمت بھی۔
نازک اور سریلی آواز:
مردوں کی سریلی آواز عورتوں کے لئے اور عورتوں کی خوش آواز مردوں کے لئے فتنہ ہے۔
فَلَا فَتخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہ مَرَضٌ [1]
’’نزاکت سے بات نہ کیا کرو، ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے دِل میں کھوٹ ہے۔‘‘
بول میں ایسی شیرینی جو مردوں کے لئے خصوصی دلچپسی اور کشش پیدا کرتی ہے۔ اسلام میں حرام ہے۔ جہاں بات اور گفتگو کرنے میں اتنی احتیاط فرض کر دی گئی ہے۔ وہاں عورتوں کی ان ساحرانہ سریلی آوازوں کا سننا کسی کے لئے کیسے جائز ہو گا۔ جنہوں نے بوڑھوں تک کے دلوں کو گرما دیا ہے۔ ریڈیو فلم، گراموفون اور دوسری نجی اور غیر نجی تقریبات میں نوجوان لڑکیوں کے گانوں کی جو بھرمار رہتی ہے۔ ان کو سب سنت ہیں ۔ مگر یہ بات کسی کو بھی اوپری نہیں لگتی۔
یہی حال مردوں کی آواز کا ہے۔ ایک دفعہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کجاوے میں جا رہی تھیں تو سار بان انجشہ نامی غلام صحابی جو بہت خوش آواز تھے۔ حدی خوانی کے ذریعے اونٹوں کو ہانک رہے تھے۔
[1] الاحزاب