کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 31
زینتھا اعجبھا الخروج [1]
’’کہ عورتوں کو کپڑے کم دیا کرو۔ جب ان کے پاس خوبصورت کپڑے زیادہ ہو جاتے ہیں ، تو ان کو گھروں سے باہر نکلنے کا شوق چرانے لگ جاتا ہے۔‘‘
امام ابن ابی شیبہ نے بعینہٖ یہی روایت حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً روایت کی ہے۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
’’عورت فطرۃً نمود پسند ہے، اس کا جی چاہتا ہے کہ اسے کوئی دیکھے اور تڑپ جائے۔ اس لئے جب وہ بھڑکیلے لباس کے ساتھ لیس ہو جاتی ہے تو ’’قتلِ عام‘‘ کے ارادہ سے نکل کھڑی ہوتی ہے۔‘‘
اس انداز اور اسلوب سے بن سنور کر باہر نکلنے کو قرآنِ کریم نے ’’تبرج جاہلیۃ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے:۔
وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی [2]
’’اور اپنے گھروں میں جمی (بیٹھی) رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کے (سے) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو۔‘‘
سنن بیہقی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
شر النساء المتبرجات وھن المنافقات [3]
’’بدترین وہ عورتیں ہیں جو بناؤ سنگھار دکھاتی پھرتی ہیں ، وہ منافق عورتیں ہیں ۔‘‘
الرافلۃ فی الزینۃ فی غیر اھلھا کمثل ظلمۃ یوم القیمۃ لا نور لھا [4]
’’اپنے گھر بار سے باہر زینت اور تبختر کے ساتھ چلنے والی عورت قیامت کے روز بے نور ہو گی۔‘‘
افسوس! آج کل گھر میں تو سادہ سے کپڑوں میں عموماً وقت گزارتی ہیں ، مگر جب باہر نکلتی ہیں تو خوب بن ٹھن کر نکلتی ہیں اور اس کو کئی بھی شخص برا محسوس نہیں کرتا حالانکہ شرعاً یہ ممنوع ہے۔ کیوں کہ اس سے فتنے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے جتنے اور جیسے کچھ اثرات نکل رہے ہیں ، وہ اب کسی سے بھی مخفی
[1] کامل ابن عدی۔ عن انس
[2] پ۲۲، ع۱۔ الاحزاب
[3] بیہقی
[4] ترمذی۔ عن میمونۃ بنت سلام