کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 20
صاحب حیثیت یہودی خاندان خود کرتا تھا۔
سترھویں صدی عیسوی میں یہودیوں کو اسپین سے نکالا گیا۔ تو ان کے بے شمار خاندان مغربی اور شمالی یورپ میں آباد ہوئے۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کے عہد حکومت میں اسپین میں اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں نفوذ حاصل تھا۔ اسپین میں مسلمانوں نے جو یونیورسٹیاں قائم کیں جن کے فارغ التحصیل یورپی نوجوان یورپ میں علمی و فکری بیداری کی تحریک کے آغاز کا سب بنے۔ ان سے یہودیوں نے پورا پورا استفادہ کیا تھا۔ تعلیمی و طبی اداروں اور حکومت کے اعلیٰ مناصب پر یہ لوگ فائز تھے۔ چنانچہ ایک صدی تک عیسائی حکومت کے جبر و تشدد کا شکار ہونے کے باوجود جب یہ لوگ اسپین سے نکل کر یورپ میں آباد ہوئے تو علم و ہنر میں یورپی عیسائیوں سے کہیں آگے تھے۔ یورپ کے جن علاقوں میں یہ لوگ آباد ہوئے وہاں انہوں نے تعلیم کے فروغ اور جدید یورپ کے افکار و نظریات کی تشکیل و فروغ میں بھرپور حصہ لیا۔
’’غیتو‘‘ زیادہ تر مشرقی یورپ میں قائم تھے، ان کا مقصد عیسائی آبادیوں کو یہودیوں سے الگ تھلگ رکھنا اور ان کے اثرات سے محفوظ کرنا تھا، عملاً اس طرح یہودی اچھوت بن کر رہ گئے تھے۔ بایں ہمہ یہ علیحدگی ان کے لئے قومی نقطۂ نظر سے اس قدر مفید ثابت ہوئی کہ جن علاقوں میں عیسائی حکمرانوں نے رواداری سے کام لیتے ہوئے انہیں عام ملکی زندگی سے نہیں کاٹا تھا، وہاں انہوں نے از خود درخواست کی کہ ان کے لئے ’’غیتو‘‘ تعمیر کئے جائیں ۔ [1]
’’غیتو‘‘ کی اس زندگی کے وران میں ان کے اندر کئی تحریکیں اُٹھیں ۔ متعدد افراد نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ ان تحریکوں اور مدعیان مسیحیت نے یہودیوں میں عیسائی اقتدار سے آزادی اور غیر یہودی دنیا پر چھا جانے کا جذبہ پیدا کیا۔ یورپ میں عقلیت پرستی اور حریت
[1] اس موضوع کے لئے دیکھئے یہودی مصنف ایفریڈ للنتھال کی کتاب، What Price Israel کا پہلا باب۔