کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 18
ہتھکنڈوں کا اس نفرت کو شدید تر بنانے میں زبردست ہاتھ تھا۔ نسلی برتری کے غرور اور خدا کی چہیتی قوم ہونے کے زعمِ باطل سے پیدا ہونے والا عمومی طرز عمل عیسائیوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر ملک میں اقتصادی زندگی کی شہ رگ ان کے ہاتھ میں تھی۔ تجارت پر ان کا قبضہ تھا۔ بڑے بڑے بنک اور ساہوکارے انہوں نے کھول رکھے تھے۔ نہ صرف عیسائی کسان اور جاگیرداران کے سودی کاروبار کے پھیلے ہوئے جال میں گرفتار تھے۔ بلکہ جنگوں اور ہنگامی ضرورتوں کے وقت حکومتیں بھی ان سے قرض لینے پر مجبور تھیں ، اقتصادی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ بالآخر ۱۵۵۵ء میں پوپ پال چہارم نے ’’غیتو‘‘ (Ghetto) یعنی یہودی باڑے قائم کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ ان قوانین کا از سرِ نو احیاء ہوا جو بارہویں اور تیرہویں صدی میں لیٹران کی تیسری اور چوتھی کونسلوں نے منظور کئے تھے۔ ان کے تحت کوئی غیر یہودی کسی یہودی کی ملازمت یا ما تحتی میں کام نہیں کر سکا تھا۔ حکم جاری کیا گیا کہ یہودی ہر وقت امتیازی بیج لگا کر رہیں ۔ اور عیسائیوں کے درمیان نہ رہیں ، ان کی مذہبی کتابیں ضبط کر لی گئیں ۔ تمام اہم مناصب اور پیشوں سے محروم کر دیا گیا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ [1] غیتو۔ سوشلزم کی نرسری: پوپ نے تو ‘‘غیتو‘‘ (یہودی باڑے) یہودیوں کی سازشوں سے عیسائی معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لئے کھڑے کئے تھے، عملاً ان سے ان کی سازشی ذہنیت کو اور جلالی ’’غیت‘‘ کی زندگی میں انہوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو تلمود کے پیش کردہ خطوط پر استوار کرنے کی جدوجہد کی اسی زندگی سے آگے چل کر ’’کمیون‘‘ (Commune) سسٹم کا تصور وضع کیا گیا، انہی خطوط پر یہودیوں نے فلسطین آباد ہوتے وقت ’’گبٹز‘‘ (Kibbutz) یعنی مشترک جائیداد اور اجتماعی ملکیت کے تصور پر مبنی بستیاں بسائیں ۔[2] ’’غیتو‘‘ نے آہستہ آہستہ ریاست در ریاست کی صورت اختیار کر لی۔ ہر ’’غیتو‘‘ کا انتظام ایک مقامی کونسل کرتی تھی، مقامی
[1] مقالہ: Jews، انسائیکلو پیڈیا، برٹیانیکا۔ ۱۹۶۴ء جلد ۱۳، ص ۵۷۔ [2] کبٹز کے بارے میں تفصیلات کے لئے دیکھئے، عبد الوہاب کیالی کی کتاب، ’’الکیبوتز او المزارع الجماعیۃ فی اسرائیل‘‘ جو منظمۃ التحریر الفلسطینیۃ مرکز الابحاث بیروت نے شائع کی ہے، یہ کتاب انگریزی میں بھی اسی ادارے کی طرف س چھپ چکی ہے۔ (مصنف کے پیش نظر اس کا عربی ایڈیشن ہے۔ اِس کتاب میں کیالی نے جو بات کہی ہے۔ اسرائیلی اخبارات، مصنفین اور لیڈروں کے حوالے سے کہی ہے۔ مختصر یہ کہ ان بستیوں میں ملکیت مشترکہ ہوتی ہے (سوشلزم میں بھی یہودی اہلِ فکر ملکیت کو مشترکہ قرار دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کبٹز میں ملکیت صرف بستی میں آباد یہودی خاندانوں کی ہوتی ہے۔ سوشلسٹ حکومت میں اسے حکومت کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے، ان بستیوں میں سب خاندان مشترکہ طور پر رہتے ہیں، ازدواجی زندگی بس زن و شو کے تعلقات تک محدود ہے، بچوں کے ساتھ ماں باپ کا تعلق برائے نام ہوتا ہے۔ بچے اجتماعی نرسریوں میں پلتے اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں، ماں باپ انہیں وہیں جا کر ملتے ہیں۔ ایک ایک عورت کے کئی شوہر اور ایک ایک مرد کی کئی (بے نکاحی) بیویاں ہوتی ہیں۔ نکاح و طلاق کو بورژوائی روایت قرار دیا جاتا ہے۔ آزاد محبت اور آزاد ہوس رانی پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ مرد اور عورت کبٹز کے وسیع ہال میں کھانا کھاتے ہیں۔ زن و شو کے تعلقات کے لئے ’’حمام‘‘ بنائے گئے ہیںَ زرعی اور صنعتی پیداوار کی آمدنی کا مالک ’’کبٹز‘‘ ہوتا ہے، جس کی انتظامیہ کو ’’کبٹ‘‘ کے ارکان ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔