کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 15
حضرت صالح علیہ السلام :
حضرت صالح علیہ السلام سب سے پہلے اپنی قوم کو دعوتِ توحید دیتے ہیں ، پھر جب ان کی قوم شرک اور فسق و فجوز سے باز نہیں آتی تو انہیں ہدایت فرماتے ہیں :۔
فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْآ اِلَیْہِ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔ (سورہ ھود)
’’اپنے رب سے بخشش مانگو پھر اس کی طرف توبہ تائب ہو جاؤ، بیشک میرا پروردگار نزدیک ہے دعائیں قبول فرماتا ہے۔‘‘
انہوں نے توبہ و استغفار کرنے کے بجائے اس اونٹنی کو جو پہاڑ سے بطورِ معجزہ نکلی تھی اور ایک تالاب کا پانی وہ پیتی تھی اور دوسرے روز قومِ صالح کے مویشی پیتے تھے مار ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح کو تسلی دی کہ تین روز تک انہیں متاعِ زندگی سے بہرہ مند ہو لینے دیجئے۔ پھر ہمارا عذاب آئے گا۔ چنانچہ ایک ہولناک چیخ سے تمام قومِ ثمود کا قلع قمع ہو گیا۔ یہ ہلاکت اور تباہی انکارِ استغفار کے باعث ہوئی۔ اگر یہ لوگ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور گناہوں سے توبہ تائب ہو جاتے تو عذابِ الٰہی ٹل جاتا اور انہیں معافی مل جاتی۔
استغفارِ ابراہیم علیہ السلام :
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان بہت بلند اور ارفع ہے۔ ہمہ وقت یادِ الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ اگر تعمیر بیت اللہ کا حکم ملا تو اپنے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیل کو ساتھ لے کر تعمیرِ کعبہ میں مصروف ہو گئے۔ اگر اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم ملا تو اس کی عمیل میں معمولی تاخیر بھی نہیں کی۔ اگر انہیں رضاے الٰہی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینی پڑی تو اس سے سرِمو انحراف نہیں کیا بلکہ توحید الٰہی کی خاطر نمرودی چخہ میں بصد شوق مردانہ وار کود گئے۔ انہوں نے استغفار ان الفاظ میں کی ہے۔
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَومَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔
’’اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے والدین اور تمام مومنوں کی بخشش فرمائیے جس دن قیامت قائم ہو گی۔‘‘
بلکہ اپنے والد کے لئے مخصوص دعا مانگنے کا وعدہ فرمایا:
لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ ---’’کہ میں تیرے لئے بخشش کی دعا مانگوں گا۔‘‘