کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 14
چنانچہ اللہ تعالیٰ کو ان کی تضرع اور عاجزی سے دعا کرنا اور معافی مانگنا پسند آئی اور ان کی توبہ قبول فرما کر اپنی برگزیدہ اور پسندیدہ ہستیوں میں شامل کر لیا۔ استغفارِ نوح علیہ السلام : جب طوفانِ نوح آتا ہے تو حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کشتی میں سوار ہو جاتے ہیں اور اپنے بیٹے کنعان سے کہتے ہیں : ’’بیٹا! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ۔‘‘ لیکن ان کا بیٹا کشتی میں سوار ہونے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’میں کسی پہاڑ کے دامن میں پناہ لے لوں گا۔‘‘ چنانچہ جب طوفانی امواج کی لپیٹ میں آتا ہے تو حضرت نوح علیہ السلام پدرانہ شفقت سے مغلوب ہو کر بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ ’’الٰہی! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ برحق ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ درخواست ناگوار گزرتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کو ڈانٹ آتی ہے کہ ’’اے نوح! یہ تیرے اہل میں شامل نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال صالح نہیں ہیں ۔ تم میرے سامنے ایسی درخواست مت کرو کسی کو غلط اور ناجائز سفارش کرنا جاہلوں کا کام ہے۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام اپنی غلطی کا فوراً اعتراف کرتے ہیں اور ندامت میں ڈوب کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی غلطی کی معذرت ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ رَبِّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہ عِلْمٌ وَّاِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ اَکُنْ مِّنْ الْخٰسِرِیْنَ۔ (سورہ ہود) ’’اے باری تعالیٰ میں تیرے ساتھ پناہ مانگتا ہوں ایسا سوال کرنے سے جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معافی نہ دی اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔‘‘ حضرت ہود علیہ السلام : حضرت ہود کی قوم شرک و بت پرستی میں مبتلا تھی۔ ہر قسم کے صنعائر و کبائر ان کی فطرت بن چکی تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام قوم کی یہ زبوں حالی دیکھ کر انہیں نصیحت فرماتے ہیں : یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْآ اِلَیْہِ ط (سورہ ھود) ’’اے میری قوم! اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ کے لئے توبہ کرو۔‘‘