کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 13
صفات کی تعریف کما حقہ ادا نہیں ہو گی۔ ہر قسم کے گناہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی مبرا و پاک تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم عن الخطا تھے۔ اس کے باوجود خلاقِ کائنات نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار استغفار کی تلقین فرمائی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ دراصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا اسلوب بیان ار کابوں سے انوکھا اور نرالا ہے جب کسی حکم کی تاکید مقصود ہوتی ہے تو اس وقت امت کے علاوہ امت کے رہنما کو مخاطب کیا جاتا ہے اور زور دیا جاتا ہے۔ مقصود و مدعا یہ ہوتا ہے کہ یہ حکم اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ پہلے اپنے لئے اور پھر دیگر مومن مردوں کے لئے اللہ رب العزت سے گناہوں کی معافی کے لئے التجا کیجئے۔ جب سید المرسلین کا یہ حال ہے تو ام مومنین جو شبانہ روز لغزشوں اور غلطیوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان کے لئے استغفار کی کس قدر ضرورت ہو گی؟
استغفارِ آدم علیہ السلام :
انبیاء سابقین کی سوانح عمریوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے اور دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے اپنے پروردگار کے آستانہ پر جھک کر اپنی غلطیں کا اقرار کیا اور اپنی لغزشوں کی معافی مانگی۔ سب سے پہلے ابو الانبیاء حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی کے ایک باب پر نگاہ ڈالیے اور دیکھیے کہ شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے میں شیطانِ لعین کے بہکانے پر کتنی عجلت سے کام لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآنِ عزیز میں ان کے اس فعل کو عصیاں سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
عَصٰیٓ اٰدَمُ رَبَّہ فَغَوٰی (طٰہٰ) ’’حضرت آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بھول گئے۔‘‘
اس غلطی کی پاداش میں انہیں لباس جنت سے محروم ہونا پڑا بلکہ جنت سے دیس نکالا مل گیا اور کرۂ ارض کی طرف دھکیلے گئے۔ زمین پر آکر ایک عرصۂ طویل اپنے پروردگار کی بارگاہ میں آہ و زاری کرتے ہوئے اپنی لغزش کی معافی ان الفاظ میں مانگتے رہے۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا، وَاِنْ لَّمْ تَغْفِر لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔
’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے (شجر ممنوعہ کا پھل کھا کر گناہ کیا ہے اور) اپنی جان پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معافی نہ دی اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے۔‘‘