کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 12
میں غرق ہونے کے باوجود اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں معافی کی درخواست پیش نہیں کرتا۔ استغفار کی اہمیت: غلطی اور لغزش سرزد ہو جانے کے بعد بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہونا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور آئندہ کے لئے ایسے فعل بد سے توبہ کرنا مومنوں کی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے امت محمدیہ کو اور ان کے رہبرِ اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار اکید فرمائی ہے کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (محمد) ’’اپنے اور مومن مرد او عورتوں کے گناہوں کی خاطر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ؕ اِنَّہ کَانَ تَوَّابًا۔ (نصر) ’’اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کیجئے اور اس سے معافی مانگیے، بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ سورہ مومن میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں :۔ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ َبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ۔ اپنی لغزش کی معافی مانگیے اور صبح و شام اپنے پروردگار کی حمد اور پاکی بیان کیجئے۔ علاوہ ازیں بیشتر مقامات پر استغفار کا ذِکر ہ۔ یہاں پر یہ بات قابل غور و فکر ہے کہ آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زندگی عہد طفولیت کی ہو یا ایام شباب کی، مکی ہو یا مدنی تمام کی تمام ہی بے عیب اور بے داغ گزری ہے۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ سرور کائنات کی حیاتِ مبارکہ سفید چادر کی طرح بے داغ تھی۔ اور معمولی سے معمولی دھبۂ عصیاں بھی کسی نے نہیں دیکھا۔ حتیٰ کہ مشرکینِ مکہ آپ کے سخت ترین دشمن ہونے کے باوجود آپ کی ذاتِ گرامی پر کوئی عیب نہیں لگا سکے۔ سوا اس کے کہ آپ کو ساحر یا کاہن کا خطاب دیں ۔ آپ کی امانت، شجاعت، صداقت، صبر و استقلال اور زہد و عبادت وغیرہ اس قدر تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیکرِ صفاتِ حسنہ یا مجسمۂ اخلاقِ حسنہ کہا جائے تو پھر بھی صحیح معنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ستودہ