کتاب: محدث شمارہ 8 - صفحہ 11
ایک اور مقام پر مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ۔ (آل عمران)
’’کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔‘‘
سورہ ذاریات میں فرمایا:
وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔
مزید برآں کتاب اللہ اور حدیثِ رسول پر غور کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ گناہ کا ارتکاب مشیتِ ایزدی کے عین موافق ہے۔ چنانچہ ایک حدیث شریف میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللّٰهُ بِکُمْ وَلَجَآءَ بِقَوْمٍ یُّذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ َیَغْفِرُ لَھُمْ (مسلم)
’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں لے جائے گا اور ایسی قوم پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے۔ پھر اللہ رب العزت سے گناہ کی معافی کی التجا کریں گے و اللہ تعالیٰ انہیں معافی عنایت فرمائیں گے۔‘‘
ان قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا ہے کے مومن کی یہ صفت نہیں کہ صغائر و کبائر سے کلیۃً پاک ہو او اپنی تمام زندگی میں گناہ کی آلودگی سے محفوظ رہا ہو۔ بلکہ مومن اور کافر دونوں ہی گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ البتہ ان میں امتیازی فرق یہ ہے کہ مومن سے گناہ ہو جاتا ہے، کرتا نہیں ہے۔ اس سے بھول اور سہو ہو جاتی ہے۔ عمداً اور ارادۃً ایسا نہیں کرتا۔ پھر اس بھول پر ساری عمر نادم او پشیمان رہتا ہے اور بار بار اپنے سابقہ گناہ کو یاد کر کے بارگاہِ ایزدی میں معافی کی درخواست کرتا ہے۔ ایک دفعہ گناہ کا مرتکب ہونے کے بعد پھر اس گناہ کے نزدیک آنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس کے برعکس کافر جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ بار بار کرتا ہے اور گناہ پر اصرار کرتا ہے۔ اپنے کئے پر نادم نہیں ہوتا۔ اور گناہ کو موجبِ فخر تصور کرتا ہے۔ عمداً ایسا کرتا ہے۔ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اسے اپنے اس فعل قبیح پر ندامت یا خفت محسوس نہیں ہوتی۔ سب سے بڑھ کر گناہوں