کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 7
8)مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعہ صفائی و فیصلۂ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ 9)مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔ انہیں اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہو گا کہ انہی کے قاضی یہ فیصلے کریں ۔ 10)غیر مسلم باشندگانِ مملکت کو حدود و قانون کے اندر مذہب و عبادت تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہو گی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم و رواج کے مطابق چلانے کا حق حاصل ہو گا۔ 11)غیر مسلم باشندگانِ مملکت سے حدودِ شرعیہ کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہوں ان کی پابندی لازمی ہو گی۔ اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے۔ ان میں غیر مسلم باشندگانِ ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔ 12)رئیسِ مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہوریا ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔ 13)رئیسِ مملکت ہی نظمِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہو گا۔ البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔ 14)رئیسِ مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہو گی۔ یعنی وہ ارکانِ حکومت اور منتخب نمائندگانِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔ 15)رئیسِ مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہو گا کہ دستور کو کلاً یا جزاً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔ 16)جو جماعت رئیسِ مملکت کے انتخاب کی مجاز ہو گی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔ 17)رئیسِ مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہو گا اور قانونی مواخذہ سے بالا تر نہ ہو گا۔