کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 6
1)اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
2)ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہو گا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ): اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو اس کی تشریح ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیئے جائیں گے۔
3)مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول و ضوابط پر مبنی ہو گی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔
4)اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائرِ اسلامی کے احیاء و اعلاء اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لئے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
5)اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ وہ مسلمانانِ عالم کے رشتہ اتحاد و اخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیت کی بنیادوں پر نسلی و لسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ کا انتظام کرے۔
6)مملکت بلا امتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لا بدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہو گی، جو اکتسابِ رزق کے قابل نہ ہوں ، یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعیٔ اکتساب پر قادر نہ ہوں ۔
7)باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہونگے جو شریعتِ اسلامیہ نے ان کو عطا کئے ہیں یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان و مال و آبرو، آزادیٔ مذہب و مسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ ذات، آزادیٔ اظہارِ رائے، آزادیٔ نقل و حرکت، آزادیٔ اجتماع، آزادیٔ اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔