کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 45
ان مساواتوں کو حل کرنے میں خوارزمی نے صرف ایک ہی مثبت حل معلوم کیا۔ یعنی پہلی مساوات کا حل (+۳) ہے۔ اسے دوسرے حل(لا=13) کا علم نہیں ۔ خوارزمی کے اس اہم رسالے کا ۱۸۳۱ء میں ایف۔ روزن (F. Rosen) نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ فریڈرک روزن نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عربوں نے یہ فن ہنود سے سے حاصل کیا۔ اس مقصد کے لئے روزن نے بھاسکر اچاریہ کی کتاب ’’لیلاونی‘‘ اور ’’وجے گیتا‘‘ کے حوالے دیئے ہیں۔ لیکن مثل مشہور ہے کہ ’’دورغ گورا حافظہ بنا شد‘‘ اس لئے یہ حقیقت قطعی طور پر بھول گیا کہ محمد بن موسیٰ الخوارزی نویں صدی عیسوی کے آغاز میں تھا۔ ’’انسائیکلو پیڈیا آف اسلام نے اس کی وفات ۲۲۰ھ بیان کی ہے۔ جو سنِ عیسوی کے مطابق ۸۳۵ء ہے اور بھاسکو اچاریہ مصنف ’’لیلاوتی‘‘ بارہویں صدی میں غزرا ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ خوارزمی نے بھاسکر اچاریہ کی خوشہ چینی کی ہو، بخلاف اس کے گمانِ غالب یہ ہے کہ بھاسکر اچاریہ نے محمد بن موسیٰ سے معلومات اخذ کی ہوں ۔ یورپ کے دوسرے متعصب مورخین بار بار لکھتے ہیں کہ خوارزمی کی کتاب میں کوئی خاص بات نہیں بلکہ یونانی ماہرین ریاضی سے ماخوذ ہے۔ لیکن لطف یہ ہے کہ وہ اس کے ماخذ کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ یہ کتاب یونانی مفکرین کے افکار سے اس لئے ماخوذ نہیں ہے کہ وہ مساواتوں کے غیر ناطق حل قبول نہیں کرتے جبکہ خوارزمی نے غیر ناطق حل بھی پیش کئے ہیں ۔ خوارزمی کے بعد احمد النہاوندی (م۱۰۴۰ء) نے کسور کی تقسیم اور جذر المربع دریافت کرنے کے طریقوں کی ضاحت کی اور ابراہیم انفراری نے مکعب مساواتوں کے حل معلوم کرنے کے لئے الخوارزمی کا ہندسی طریقہ استعمال کیا۔ عمر خیام (م ۱۱۳۲ء) جو ایک شاعر کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہے۔ بنیادی طور پر ایک منجم اور ریاضی دان تھا۔ اس نے الجبرے کو بہت ترقی دی۔ اس نے اپنی کتاب میں دو درجی اور سہ درجی مساواتوں کے حل کو فروغ دیا۔ خیام کی یہ کتاب ۱۹۳۲ء میں امریکہ سے شائع ہو چکی ہے۔