کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 42
سے کفر و ارتداد اور زندقہ کا علم ہوتا تھا۔
عزیزانِ محترم! یہ ہے قتنۂ استشراق کا تاریخی پس منظر اس کا سرسری تعارف اور مستشرقین کے کام کا معمولی جائزہ۔ اس فتنہ سے کما حقہ آگاہ و آشنا ہونے کے لئے دراصل یہ نقطۂ آغاز اور ایک محرک ہے کہ اس جانب عنانِ توجہ موڑ کر دیکھئے کہ مستشرقین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، قرآن حکیم اور دین اسلام کو کس طرح ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اور جانچیئے کہ آیا آپ کے ذخیرۂ علم و فضل میں اس کا شافی جواب موجود بھی ہے یا نہیں ۔
اصل موضوع زیر تبصرہ یہی تھا کہ مستشرقین کے وارد کردہ اعتراضات کا جواب دیا جائے مگر میرے نزدیک اصلی مبحث پر گفتگو اس پس منظر کے بغیر نہ موزوں تھی نہ مفید، میرے لئے اس قلیل فرصت میں ممکن نہیں کہ مستشرقین کے کسی اعتراض کو پیش کر کے اس کا تفصیلی جواب پیش کر سکوں ۔ اس لئے اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر آپ کے قلب و ذہن کے کسی گوشے میں یہ جذبہ ابھرا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کو مستشرقین نے جس طرح داغدار کیا ہے، اس کی تفصیلات معلوم کریں اور پھر اس کے جواب کے در پے ہوں تو اس ضمن میں مطالعہ کی راہیں کھلی ہیں اور رہنمائی کے لئے میری خدمات حاضر ہیں ۔ اس لئے کہ ہمارا علماء اس پہلو سے غافل نہیں رہے اور انہوں نے سیرتِ طیبہ کا پورا پورا دفاع کیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دفاع کا فریضہ انہی لوگوں نے ادا کیا جو رجعت پسند کہلاتے ہیں ۔ کسی ’’روشن خیال‘‘ کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی۔
سامعین عظام! مستشرقین کی برکات کے طفیل دنیائے اسلام آج ایک دینی، فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہے۔ یہ مصیبت ان تمام لوگوں کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں ، جو اسلام کا درد رکھتے ہیں ۔ آج ہر اسلامی ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا حال یہ ہے کہ اعتقاد و ایمان کا سرا ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ اخلاقی بندشیں وہ توڑ کر پھینک چکا ہے، شک و الحاد، نفاق و ارتیاب کا ایک طوفان ہے جو ہمارے دل و دماغ میں برپا ہے۔ غیبی حقائق پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ سیاست و اقتصاد کے مادہ پرستانہ نظریات فروغ پا رہے ہیں ۔