کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 41
افکار و اقدار کی عظمت ثابت کی تاکہ تعلیم یافتہ طبقہ کا رابطہ اسلام سے کمزور پڑ جائے یا کم از کم یہ سمجھنے پر مجبور ہو کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف انہوں نے بدلتی ہوئی زندگی اور دورِ حاضر کی ارتقاء پذیری کا نام لے کر خدا کے آخری اور ابدی دین پر عمل کرنے کو روایت پرستی، رجعت پسندی اور دقیانوسیت کا مترادف قرار دیا۔ دوسری طرف ان پر ایسی تہذیب کو لا سوار کیا جس نے ان سے دینی حمیت و غیرت کا باقی ماندہ ورثہ بھی چھین لیا۔
یہ مستشرقین اپنے فلسفیانہ افکار کا لاؤ لشکر لے کر اسلامی دنیا پر حملہ آور ہوئے، وہ فلسفلے جن کی خراش خراش بڑے بڑے فلاسفر اور یگانۂ روز اشخاص کی ذہنی کاوش کی رہین منت تھی۔ مستشرقین نے ان پر ایسا علمی اور فلسفیانہ رنگ چڑھایا کہ معلوم ہو یہ فکرِ انسانی کی معراج ہے، مطالعہ و تحقیق اور عقل انسانی کی پرواز اس پر ختم ہے اور غور و فکر کا یہ وہ نچوڑ ہے۔ جس کے بعد کچھ اور سوچا نہیں جا سکتا۔
حالانکہ ان فلسفوں میں کچھ چیزیں وہ تھیں جو تجربات و مشاہدات پر مبنی تھیں ۔ اور اس لئے صحیح تھیں ، اور بہت سی چیزیں وہ تھیں جو محض ظنّ و تخمین اور فرض و تخییل پر مبنی تھیں ۔ گویا ان میں حق بھی تھا اور باطل بھی، علم بھی تھا اور جہل بھی۔ یہ فلسفے مغربی فاتحین کے جلو میں آئے اور مشرقی عقل و طبیعت نے فاتحین کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی قبول کر لی۔ ان لوگوں میں وہ بھی تھے۔ جنہوں نے ان کو سمجھ کر قبول کیا، مگر وہ کم تھے۔ زیادہ تر وہ تھے جو ذرا بھی نہیں سمجھے تھے لیکن مومن اور مسحور سب کے سب تھے۔ ان فلسفوں پر ایمان لانا ہی عقل و خرد کا معیار بن گیا۔ اور اس کو روشن خیالی کا شعار سمجھا جانے لگا۔ مستشرقین کے زیر اثر یہ الحاد و ارتداد اسلامی ماحول میں بغیر کسی شورش اور کش مکش کے پھیل گیا۔ نہ باپ اس انقلاب پر چونکے، نہ اساتذہ اور مربیوں کو خبر ہوئی اور نہ غیرت ایمانی رکھنے والوں کو جنبش ہوئی۔ اس لئے کہ یہ ایک خاموش انقلاب تھا۔ اس الحاد و ارتداد کو اختیار کرنے والے کسی کلیہ میں جا کر کھڑے ہوئے نہ کسی معبد میں داخل ہوئے ، نہ کسی بت کے آگے انہوں نے ڈنڈوت کی اور نہ کسی استہان پر جا کر قربانی پیش کی۔ سابقہ اَدوار میں یہی سب علامات تھیں جن