کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 40
کے بجائے چڑ گئے اور تاویلات کا سہارا لینے لگے۔ اسی طرح اٹلی کے مشہور مستشرق بوسانی کے انگریزی مقالہ کے عربی ترجمہ کے سلسلہ میں جب احقر نے ان سے مل کر مستشرقین کی اسلام دشمنی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جو جواب دیا، وہ اس اعتراف پر مبنی تھا کہ مستشرقین کی اکثریت اسی قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح مجھے انگلینڈ امریکہ فرانس اور جرمنی کے مستشرقین سے ملنے اور بالمشافہ گفتگو کرنے کے متعدد مواقع ہاتھ آئے اور اس بات کا عملی تجربہ حاصل ہوا کہ ان لوگوں کے دل میں اسلام اور شارع اسلام کے خلاف بغض و عناد کا ایک بحر اوقیانوس موج زن ہے۔ مستشرقین کی چابکدستی: حیرت کی بات یہ ہے کہ مستشرقین کی نیش زنی اور قدر ڈھکی چھپی ہوتی ہے کہ ایک صاحب بصیرت شخص ہی کو اس کا احساس ہو سکتا ہے، گویا وہ شربت کے جام میں زہر گھول کر پیش کرتے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یورپ کے مادّی علوم سے ناپختہ اذہان اس قدر مرعوب ہیں کہ انہوں نے دینی و روحانی علوم میں بھی یورپ کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا ہے۔ ؎ یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نو تعلیم یافتہ نوجوان دینی و اسلامی علوم کو بھی یورپی فکر کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں ۔ ہمارے نوجوان فضلاء کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اسلامی علوم کا مطالعہ براہِ راست کتاب و سنت کے مآخذ سے کریں ، بلکہ مستشرقین نے اپنی ناقص تحقیقات کی بناء پر تاریخ اسلام اور کتاب و سنت کے متعلق جو کچھ لکھ دیا ہے۔ اس کو حرفِ آخر سمجھ لیا جاتا ہے، گویا غزالی رحمہ اللہ ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، رازی رحمہ اللہ ، شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور مجد الف ثانی رحمہ اللہ کو نظر انداز کر کے مستشرقین کے خوانِ کرم کی زلہ ربائی ہمارے نوجوانوں ہی کے حصہ میں آئی ہے۔ اس احساس کمتری اور غلامانہ ذہنیت پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔؎ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں ان مستشرقین نے ایک طرف اسلام کے دینی افکار و اقدار کی تحقیر کا کام کیا اور مسیحی یورپ کے