کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 4
تھے، انہیں ہمارے نزدیک دو اہم وجوہ کی بناء پر دستور کی اساس بنانا لازمی ہے۔ اوّل یہ کہ یہ علماء جملہ اسلامی فرقوں کے نمائندہ علماء اور ملک کے عوام کی دینی اور روحای وابستگی کا مرکز ہیں جنہیں پاکستانی عوام کے جذبات کا نشان قرار دیا جاتا ہے۔ ثایا! ان علماء نے ۲۲ نکات پر مشتمل یہ آئینی سفارشات متفقہ طور پر طے کی تھیں جبکہ لا دین عناصر مسلمانوں کے مذہبی اختلافات کی وجہ سے کسی متفقہ آئین کو ناممکن قرار دیتے تھے۔ مزید برآں ان نکات سے اس غلط پروپیگنڈے کا طلسم بھی توڑ ڈالا کہ دورِ جدید کے مقتضیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی اسلامی آئین کا وجود ممکن نہیں ۔ ۳۱ علماء کے اسماءِ گرامی اور بائیس نکات درج ذیل ہیں جنہیں مسلمان کسی ذہنی مرعوبیت کے بغیر اسلامی فلاحی ریاست کے بنیادی خاکے کے طور پر کسی جدید سے جدید ترقی یافتہ آئینی خاکے کے مقابلے میں پیش کر کے اسلام کی سیاسی برتری ثابت کر سکتےہیں ۔
اسماء علماء کرام
1. علامہ سید سلیمان ندوی (صدر مجلس)
2. (مولانا) احمد علی (امیر انجمن خدام الدین لاہور)
3. (مولانا) سید ابو الاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)
4. (مولانا) محمد بدر عالم (استاذ الحدیث، دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد ٹنڈو اللہ یار سندھ)
5. (مولانا) احتشام الحق تھانوی (مہتمم دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد سندھ)
6. (مولانا)عبد الحامد قادری بدایونی (صدر جمعیۃ علمائے پاکستان سندھ)
7. (مفتی) محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیماتِ اسلام مجلس دستور ساز پاکستان)
8. (مولانا)محمد ادریس (شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ بہاول پور)
9. (مولانا)خیر محمد (مہتمم مدرسہ خیر المدارس، ملتان شہر)
10. (مولانا مفتی)محمد حسن (مہتمم مدرسہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور)
11. (پیر صاحب) محمد امین الحسنات (مانکی شریف، سرحد)
12. (مولانا) محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد سندھ)