کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 39
4.لونڈی غلام بنانے کی اجازت اور اس پر عمل 5.دنیا داروں کی سی حکمت عملی اور بہانہ جوئی (سیرۃ النبی شبلی جلد اوّل) یورپین مصنفین نے زبان و قلم کے جو نشتر چلائے ان کی تندی و تیزی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ انہوں نے کتابِ الٰہی کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف قرار دے کر اس میں کیڑے نکالے، اس کی عبارت کو غیر مربوط اور غلط قرار دیا اس کے معانی و مطالب پر تنقید کی اور اسے ادنیٰ درجے کا عوامی کلام ٹھہرایا۔ اسی طرح انہوں نے دین اسلام پر جو حملے کئے ناقابل بیان ہیں ۔ حضرات! مستشرقین کی عنایات دین اسلام قرآن کریم اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر زیادہ ہیں کہ ؎ سفینہ چاہئے اس بحرِ بیکراں کے لئے میں اپنے اندر یہ جرأت نہیں پاتا کہ مستشرقین کی ہرزہ سرائی پر مشتمل اقتباسات پیش کر کے اپنی زبان کو آلودہ اور آپ کے احساسات کو مجروح کروں ورنہ میں ڈھیروں کتب آپ کے سامنے پیش کر کے مستشرقین کی دریدہ دینی کا ثبوت مہیا کر سکتا ہوں ۔ یہی نہیں کہ احقر زمانۂ طلب علم سے مستشرقین کی نصانیف پڑھتا چلا آیا ہے، بلکہ بذاتِ خود مجھے بعض مستشرقین سے ملنے اور ان سے مبادلۂ افکار کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ۱۹۸۵ء جنوری میں پنجاب یونیورسٹی نے لاہور میں ایک مجلس مذاکرہ عالمیہ منعقد کی تھی جس میں احقر نے علماء مصر وشام کے ترجمان کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ اس دوران مجھے عصر حاضر کے عظیم مستشرق اور موّرخ ہٹیّ کے ساتھ کم از کم دو ہفتے گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ہٹی اگرچہ سکونت کے اعتبار سے امریکی ہیں مگر لبنانی الاصل ہیں اور عربی ان کی مادری زبان ہے، وہ عصر حاضر کے ان مستشرقین میں شمار ہوتے ہیں جو تعصب سے پاک ہیں ۔ دوران ملاقات جب احقر نے موصوف کی کتب کے نشان زدہ مقامات پیش کئے جہاں انہوں نے بایں ہمہ اِدّعائے بے تعصبی اسلام اور شارع اسلام پر حملے کئے تھے تو اطمینان بخش جواب دینے