کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 37
ان اصل عربی تصنیفات اور ان کے تراجم کی اشاعت نیز اسلامی ممالک و یورپ کے تعلقات اور آزادانہ تحقیقات کے ذوق و شوق نے یورپ میں تاریخ اسلام اور سیرتِ نبوی کے مصنفین کی ایک کھیپ پیدا کر دی۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھنے والوں کی کثرتِ تعداد کا ذِکر آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور عربی دان پروفیسر مارگو لیتھ نے اپنی کتاب ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں اِس طرح کیا ہے۔ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جن کا ختم ہونا غیر ممکن ہے، لیکن اس میں جگہ پانا قابل فخر چیز ہے۔‘‘ مستشرقین کی اقسام: مستشرقین کے نام اور ان کا کام اس قدر وسیع الذیل ہے کہ اس کی تفصیلات ذکر کر کے میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا، البتہ یہ عرض کروں گا کہ ان کی تین بڑی قسمیں ہیں : 1.جو عربی زبان اور اصل ماخذوں سے آشنا نہیں ۔ ان لوگوں کا علمی سرمایہ اوروں کی تصانیف و تراجم ہیں ۔ ان کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ اس مشکوک اور ناقص مواد کو قیاس آرائی کے قالب میں ڈھال کر دکھائیں ۔ مثال کے طور پر مشہور مؤرخ گبن کا نام اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ 2.دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو عربی زبان و ادب اور تاریخ و فلسفۂ اسلام کے بہت بڑے ماہر ہیں ، لیکن سیرت کے فن سے بے گانہ ہیں ۔ ان لوگوں نے سیرت یا دین اسلام پر کوئی مستقل تصنیف نہیں لکھی، لیکن ضمنی موقعوں پر عربی دانی کے زعم میں اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہایت بے باکی سے جو چاہتے ہیں لکھ جاتے ہیں ۔ مثلاً جرمن کا مشہور مستشرق ساخو جس نے طبقات ابن سعد شائع کی ہے۔ اس کی عربی دانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، علامہ بیروی کی کتاب ’’الہند‘‘ کا دیباچہ اس نے جس تحقیق سے لکھا ہے رشک کے قابل ہے، لیکن اسی دیباچہ میں اسلامی امور کے متعلق اس نے ایسی باتیں لکھی ہیں جن کو پڑھ کر بھول جانا پڑتا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ جرمنی کے مشہور مستشرق نولایکی نے قرآن مجید کا خاص مطالعہ کیا ہے، لیکن انسائیکلو پیڈیا جلد ۱۶ میں قرآن پر اس کا جو آرٹیکل ہے نہ صرف اس کے تعصب بلکہ اس کی جہالت کے رازِ پنہاں کی بھی پردہ