کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 36
سترھویں اور اٹھارھویں صدی: سترہویں صدی کے سنینِ وسطیٰ یورپ کے عصر جدید کا مطلع ہے۔ یورپ کی جدوجہد سعی و کاوش اور حریت و آزادی کا دَور اسی عہد سے شروع ہوتا ہے۔ ہمار مقصد کی جو چیز اس دَور میں پیدا ہوئی، وہ مستشرقین کا وجود ہے۔ جن کی کوشش سے نادر الوجود عربی کتابیں ترجمہ اور شائع ہوئیں ، عربی زبان کے مدارس علمی و سیاسی اغراض سے جابجا ملک میں قائم ہوئے اور اس طرح وہ زمانہ قریب آا گیا کہ یورپ اسلام کے متعلق خود اسلام کی زبان سے کچھ سن سکا۔ اس دَور کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ سنے سنائے عامیانہ خیالات کے بجائے کسی قدر تاریخ اسلام اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد عربی زبان کی تصایف پر قائم کی گئی۔ گو موقع بہ موقع سابقہ بے بنیاد معلومات کا نمک مرچ بھی شامل کر دیا گیا۔ اس عہد میں عربی زبان کی تاریخی تصنیفات کا ترجمہ ہوا، مگر یہ عجیب بات ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان مستشرقین نے جن عربی تاریخوں کا ترجمہ کیا وہ اکثر ان عیسائی مصنفین کی تصنیفات تیں جو اسلامی ممالک کے باشندے تھے۔ اِس ضمن میں ارپی نیوس مار گولیتھ ایڈورڈ پوکاک اور ہاٹنجر کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اٹھارویں صدی عیسوی کے آخر میں جب یورپ کی سیاسی قوت اسلامی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی تو مستشرقین کی ایک کثیر التعداد جماعت عالم وجود میں آئی۔ انہوں نے حکومت کے اشارہ سے السنۂ شرقیہ کے مدارس کھولے، مشرقی کتب خانوں کی بنا ڈالی، ایشیاٹک سوسائیٹیاں قائم ہیں اور تصنیفات کی طبع و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان مدارس اور سوسائٹیوں کی تقلید سے تمام ممالک یورپ میں اس قسم کی درس گاہیں اور انجمنیں قائم ہو گئیں ۔ ہر یونیورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسروں اور کتب خانوں کا وجود لازمی سمجھا جانے لگا۔ مسلمانوں کے ہاں عربی زبان میں سیرت و مغازی کی جو کتابیں محفوظ تھیں ان میں سے اکثر اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک یورپ میں چھپ گئیں ۔ اور ان میں سے بہت سی کتب کا ترجمہ یورپین زبانوں میں شائع ہو گیا۔