کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 35
حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کے حالات اور واقعات کا ایک ایک حرف اس احتیاط کے ساتھ محفوظ رکھا ہے کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت کے ساتھ قلمبند نہیں ہو سکے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کی حد یہ ہے کہ آپ کے افعال و اقوال کی تحقیق کے لئے مسلمانوں نے ‘‘اسماء الرجال‘‘ کے نام سے ایک مستقل فن ایجاد کیا اور اس میں آپ کے دیکھنے والوں اور ملنے والوں میں سے تیرہ ہزار اشخاص کے نام اور حالاتِ زندگی قلمبند کئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اس زمانہ میں ہوا جب دنیا میں تصنیف و تالیف کا آغاز ہو رہا تھا۔ مگر یہاں یہ سیرت نویسی کی تاریخ مقصود ہے اور نہ مسلم سیرت نویسوں کا تفصیلی تذکرہ۔ اس دلچسپ اور علمی موضوع کے لئے ایک دوسری فرصت درکار ہے۔ یہاں جو کچھ پیش نظر ہے، وہ یہ ہے کہ مستشرقین کون تھے؟ انہوں نے سیرت نویسی کے سلسلہ میں کیا کارنامہ انجام دیا؟ اور یہ کہ ان کی کاوش اہلِ اسلام کے لئے کس حد تک ضرر یا نفع رساں ہے؟ سیرت نویسی اور مستشرقین: اہلِ یورپ ایک مدت تک اسلام سے مطلقاً نابلد تھے، جب وہاں شرق شناسی کا رواج ہوا تو اسلام کے بارے میں طرح طرح کے توہمات میں مبتلا رہے۔ یورپ نے مسلمانوں کو جس طرح جانا اس کو فرانس کا مشہور مصنف ہنری وی کاستری یوں بیان کرتا ہے۔ ’’وہ گیت اور کہانیاں جو اسلام کے متعلق یورپ میں قرونِ وسطیٰ میں رائج تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مسلمان ان کو سن کر کیا کہیں گے؟ یہ تمام داستانیں اور نظمیں مسلمانوں کے مذہب کی ناواقفیت کی وجہ سے بغض و عداوت سے بھری ہوئی ہیں ۔ جو غلطیاں اور بدگمانیاں اسلام کے متعلق آج تک قائم ہیں ان کا باعث وہی قدیم معلومات ہیں ۔ ہر مسیحی شاعر مسلمانوں کو مشرک اور بت پرست سمجھتا تھا۔ مسلمانوں کے تین خدا تسلیم کئے جاتے تھے۔‘‘ (سیرت النبی شبلی بحوالہ ترجمہ کتاب ہنری وی کاستری بزبانِ عربی مطبوعہ مصر ص ۸)