کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 34
ان دشمنانِ دین کے ساتھ مشابہت و مماثلت کا جو جذبہ ہمارے قلب ذہن میں موج زن ہے، اس کی یہ ادنیٰ کرشمہ سازی ہے کہ اگر وہ حیوانوں کی طرح کھڑے ہو کر بلکہ چلتے پھرتے کاتے پیتے ہیں ، تو ہمارا اعلیٰ طبقہ بھی اس کی بھونڈی نقالی شروع کر دیتا ہے۔ اور اگر وہ بے شعور چوپایوں کی طرح کھڑے ہو کر رفعِ حاجت کرتے ہیں ، تو ہم میں سے ترقی کا ایک مدعی بھی اسی طرح کرنے لگے اور پھر فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا جو طوفان بدتمیزی ہمارے یہاں اُٹھ رہا ہے، یہ مغرب کی اندھی نقالی کے سوا کیا ہے؟ حضرات! بڑے ادب سے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلقِ خاطر وابستگی او دل بستگی کا یہ عالم ہو ان کے بارے میں ہمارا یہ شکوہ کہاں تک درست ہے کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصطفےٰ فداہ ابی و امی کا احترا ملحوظ نہیں رکھا۔ قرآن کریم کو اپنی تنقید شدید کا نشانہ بنایا یا دین اسلام کو اپنے اعتراضات کے تیروں سے چھلنی کیا۔ اگر ہم میں دینی زندگی کی کچھ رمق بھی باقی ہوتی، تو اس کی نوبت نہ آتی۔ ہمارا مکتب اپنا فریضہ ادا کرتا تو دینی غیرت و حمیت کا یہ عالم نہ ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مکت نے نقالی کے اس جذبہ کو اور فروغ دیا، جس سے ہماری دینی حس زندہ نہ رہی۔ اسی کے حق میں علامہ فرماتے ہیں ۔ گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے مردہ ہے مانگ لایا ہے فرنگی سے کفن ہمارے مکتب نے دہریت و الحاد کے دروازے چوپٹ کھول دیئے۔ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ سامعین کرام! میں موضوع سے بہت دور نکل جانے کے لئے معذرت خواہ ہوں ، مگر مستشرقین کا ذِکر ہو تو دل کی بات کو چھپا نہیں سکتا اس لئے بقول امیر مینائی۔ امیرؔ جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے تمہید میں قدرے طوالت ناگزیر تھی۔ سیرت نویسی کا آغاز و ارتقاء: جرمنی کے مشہور مستشرق ڈاکٹر اسپرنگ نے اِس