کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 33
سنیں اور میں آپ کو سناؤں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فداۂ اَبی و امی پر کیچڑ کس نے اچھالا؟ آپ کی فرشتوں سے زیادہ پاکیزہ زندگی کو داغدار کرنے کی کوشش کس نے کی؟ آپ کی ازواجِ مطہرات اور امہات المومنین پر ناپاک حملے کس نے کئے؟ جو دین آپ لائے تھے اس کی تضحیک کس نے کی؟ اس کے عقائد و افکار کا مذاق کس نے اڑایا؟ کتبِ الٰہی کو تنقید کے تیروں سے کس نے گھائل کیا؟
آپ محو حیرت سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بد باطن کون ہے؟ آپ کے اس خاموش سوال کے جواب میں یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں اور اس کے لئے معذرت خواہ بھی ہوں کہ وہ تھے ہم اہل پاکستان کے محبوب رہنما اور ہمارے پسندیدہ فضلاء جن کو ہم مشرق شناس اور مستشرقین (Orientlist) کے نام سے یاد کرتے ہیں ، اس لئے ان کی یہ برزہ سرائی اور یادہ گوئی بہرحال گوارا ہونی چاہئے، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر (خاک بدہن ایشاں ) ان کی یہ ادا پسندیدہ گناہ سے دیکھی جانے کی اس لئے مستحق ہے کہ محبوب کی ہر ادا بھی محبوب ہوتی ہے۔
عزیزانِ من! محبوب کا لفظ میں نے نا دانستہ نہیں بلکہ دانستہ کہا ہے، محبوب کا طرز و انداز، چال ڈھال، نشت و برخاست، طرزِ بود و ماند، زندگی کے آداب و اطوار محب کی نگاہ میں نہ صرف پسندیدہ اور مستحسن ہوتے ہیں بلکہ وہ اس کی ہر ادا سے والہانہ شغف رکھتا اور اس پر سو جان سے فدا ہوتا ہے، یہی حال یہاں بھی ہے۔
ان اعدائے دین کی وہ کون سی ادا ہے جو ہمیں عزیز نہیں ۔ ہمارا رہنا سہنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا اور سونا جاگنا انہی کے قالب میں ڈھلا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں کا مہذب طبقہ دل و جان سے اس بات کا حریص ہے کہ اسی رنگ میں رنگ جائے تاکہ اس کے بارے میں کہا جا سکے۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری!