کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 32
سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مستشرقین یہ مقالہ زرعی یونیورسٹی لائل پور کے اجلاس سیرۃ النبی میں مورخہ ۱۹۷۰/۵/۳۰ پڑھا گیا۔ (پروفیسر غلام احمد حریریؔ ایم۔ اے) صدر شعبہ اسلامیات، زرعی یونیورسٹی، لائل پور اَلْحَمْدُ للّٰهِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہ الّذِیْنَ اَصْطَفٰی، صدر محترم و سامعین عظام! آپ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر متعدد تقاریر و مقالات سنے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ وہ بحر ناپیداکنار ہے، جس کی شناوری حیطۂ بشری سے خارج ہے، استطاعت انسانی کی حد تک مدح و توصیف کے بعد بھی یہی کہنا پڑے گا کہ: ؎ لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر حضرتِ گرامی! مجھے جو فریضہ تفویض ہوا ہے، اس کی نوعیت جداگانہ ہے۔ مجھے جس بات کے لئے مامور کیا گیا ہے، وہ اس امر کا اظہار و بیان نہیں کہ جس پاکیزہ ہستی کا تذکار آج مقصود ہے، اس نے کفرستان ارضی کو نعمتِ ایمان سے نوازا۔ اس کی تشریف آوری سے چمنستان دہر میں روح پرور بہار آگئی۔ چرخ نیلی نام نے اس بزم عالم کو یوں آراستہ کیا کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں ۔ ایوانِ کسریٰ ہی نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکت، روم اور اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ نہ صرف آتشِ فارسی بلکہ آتش کدۂ ہائے کفر سروید کر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی۔ شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا۔ نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔ بخلافِ ازیں مجھے یہ ناخوشگوار فریضہ سونپا گیا ہے کہ سینہ پر پتھر رکھ کر آپ یہ