کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 29
پھر دیکھئے ایک کاشت کار مر جاتا ہے اور بیوی بچے چھوڑ جاتا ہے اس کی بیوی اور بچے زمین کو ٹھیکہ یا مزارعت پر دے کر تنگی ترشی سے گزر اوقات کر لیتے ہیں ۔ جب تک بچے بڑے نہیں ہوتے اس وقت تک اسی ٹھیکہ کی رقم سے ان کا گزارہ چلتا ہے۔ اب اگر ان کی زمین حکومت چین کر دوسروں کو دیدے اور بیوہ اور یتیم کو خیرات پر گزارہ کے لئے مجبور کر دے تو یہ کون سی انسانیت اور انصاف ہو گا؟ ہم جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے طرفدار نہیں ہیں ۔ بڑی بڑی جاگیریں انگریزوں کی وفا داری سے حاصل ہوئی تھیں ۔ ان کی مناسب طریق سے تقسیم عمل میں آنی چاہئے۔ اسی طرح بڑے بڑے زمیندار قریب قریب سب ہی حرام کمائی یا قانون وراثت پر صحیح طور پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بنے ہیں ۔ یہ لوگ ہمیشہ اسلامی اقدار کو روندتے رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو قرآن و سنت کی روشی میں قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ ایسے لوگ اسلام کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔ کاشتکاروں کی بھلائی کا اسلامی قانون: احادیث صحیحہ کی رُو سے جو شخص کسی غیر آباد بنجر زمین جو کسی کی ملکیت نہ ہو، اس کو کاشت کر کے یا مکان بنا کر آباد کر لے تو وہ زمین اس کی ملکیت بن جاتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے لئے حکومت کی اجازت کی ضرورت ہے، لیکن دیگر جمہور ائمہ کے نزدیک حکومت کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ۔ آباد کرنے پر آباد کرنے والا مالک بن جائے گا اور اگر حکومت کسی کو ایسی زمین دے گی تو تین سال کے اندر اندر اس کو آباد کرنا لازم ہو گا ورنہ وہ کسی اور کو دے دی جائے گی جو اس کو آباد کرے لیکن ایک دفعہ آباد کر لینے کے بعد حکومت کو اس سے چھیننے کا کوئی حق نہیں ۔ ایسا مالک اس زمین کو فروخت بھی کر سکتا ہے اور پٹہ پر بھی دے سکتا ہے اور اس زمین میں وراثت بھی جاری ہو گی۔ احیاء الارض کے مسئلہ پر یحییٰ بن آدم نے تفصل سے گفتگو کی ہے۔ یہ وہ یحییٰ بن آدم ہیں جن کو سوشلسٹ رحمت اللہ طارق صاحب