کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 28
کا فتویٰ دیتے اور حق میں دلائل فراہم کرتے تھے۔ ان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی ان کو سرمایہ کاروں کا ایجنٹ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ نہ انہوں نے کبھی سرکاری عہدہ قبول کیا اور نہ سرکاری روپیہ بلکہ ساری عمر فقیری کی حالت میں خلیفہ کے ظلم سہے، کیا مسعود صاحب ان سے زیادہ قرآن کو جاننے والے اور غریبوں کے ہمدرد ہو سکتے ہیں ، جو شخص کہ انگریزوں کی نوکری کرتا رہا ہو اور انگریزی حکومت کو اپنی نوکری سے استحکام بخشتا رہا ہو وہ امام احمد حنبل وغیرہم کے منہ آتا ہے۔ ائمۂ سلف پر اعتراض کرتا ہے اور ان کے سامنے آکر اپنی قرآن فہمی اور حدیث فہمی کا دعویٰ کرتا ہے۔ ؎
تفوبر تو اے چرخ گرداں تفو!
موجودہ دور اور زمینداری:
آج کل دراصل خود کاشت کا وہ مسئلہ اور وہ صورت ہی نہیں رہی جو کچھ عرصہ پہلے تھی۔ اب تو بڑے بڑے زمیندار سینکڑوں ایکڑ کے مالک خود ہی ملازم رکھ کر بذریعہ ٹریکٹر کاشت کر رہے ہیں ۔ ٹریکٹر سے ایک عورت بھی خود کاشت کر سکتی ہے، بلکہ کر رہی ہے ’’اخبار خواتین‘‘ میں اس کی تفاصیل آچکی ہیں ۔
پھر زمینداری چاہے مزارعت کے طریق پر ہو چاہے نقد ٹھیکہ پر دونوں میں اقتصادی لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
آج کل تو بڑے بڑے جاگیرداروں کے لئے خود کاشت زیادہ نفع بخش ہے، یہ لوگ فارم منیجر کو رکھ کر ٹریکٹروں کے ذریعے سے کاشت کرا رہے ہیں ۔ مزارعت اور نقد ٹھیکے پر تو اکثر وہ لوگ زمین دیتے ہیں جن کی زمین اتنی تھوڑی ہے کہ اگر وہ خود کاشت کریں تو گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی، مثلاً گاؤں میں پرائمری کا ماسٹر ہے۔ اس کی چند ایکڑ زمین ہے جو اس کے گزارہ کے لئے کافی نہیں ، وہ اپنی قلیل زمین کو ٹھیکہ پر دے دیتا ہے اور باقی تھوڑی سی تنخواہ جو اسکول سے ملتی ہے اس کو ٹھیکہ کی رقم میں ملا کر اپنی گزر بسر کر لیتا ہے۔ اگر ایسے لوگوں سے زمین چھین لی جائے تو یہ ظلم نہیں تو کیا ہو گا؟