کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 27
دراصل امام ابو یوسف رحمہ اللہ جانتے تھے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کمال احتیاط اور تقویٰ کی بناء پر اور اس خیال سے کہ کہیں زمیندار مزارع سے کوئی ایسی شرط نہ کر سکے کہ اچی زمین کی فصل میری ہو گی اور خراب زمین کی تیری۔ انہوں نے نقد ٹھیکہ کو ترجیح دی اور مزارعت کی صورت میں یہ بہتر سمجھا کہ فصل ساری مالک زمین لے لے اور مزارع کو مزدوری مل جائے، جب ابو یوسف اور امام محمد نے خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دلائل اور احادیث کے نئے نئے طریق دیکھے تو صاحبین بھی امام احمد حنبل کی طرح مزارعت اور نقد ٹھیکے دونوں کو یکساں طور پر جائز اور بہتر سمجھنے لگے، یہ کہنا کہ حالات سے مجبور ہو کر ملوکیت کے اثر سے انہوں نے فتویٰ بدلا، یہ بات امام ابو یوسف پر شرمناک حملہ ہے۔ امام ابویوسف مزارعت کو جائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے اس سلسلے میں جو سب سے مستقیم بات سنی ہے وہ یہ کہ مزارعت جائز ہے اور ہم نے اس سلسلے میں ان احادیث کا اتباع کیا ہے جو خیبر میں مساقاۃ کے متعلق آئی ہیں ۔ کیونکہ وہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہیں اور زیادہ عام ہیں بہ نسبت ان کے جو اس کے خلاف ہیں ۔‘‘ [1] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا طرزِ عمل: یاد رہے کہ امام احمد حنبل رحمہ اللہ چاروں اماموں میں سب سے زیادہ زاہد اور فقیر تھے، کسی امیر کا کھانا تک نہ کھاتے تھے اور خلیفہ کا کھانا بھی نہ کھایا۔ سب سے زیادہ ظلم قید اور کوڑے خلیفۂ وقت کے حکم سے انہوں نے کھائے ’’ملوکیت‘‘ نے ان پر جتنا ظلم کیا۔ کسی پر نہ کیا ہو گا۔ لیکن یہی مظلوم امام مزارعت اور نقد ٹھیکہ کے جواز
[1] صفحہ ۸۹، کتاب الخراج، یعنی یہاں پر مسعود صاحب امام ابو یوسف کو جھوٹا قرار دے کر ان کو کہہ رہے ہیں کہ انہیں تم نے حالات سے مجبور ہو کر فتویٰ دیا ہے، حالانکہ ابو یوسف فرماتے ہیں کہ ہم نے زیادہ صحیح اور زیادہ کثرت سے روایت ش احادیث کی روشنی میں فیصلہ کیا ہے۔ کیا مسعود صاحب ابو یوسف کے دِل کا حال ان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔